کرکٹ ٹیم کی ناکامی اور کھلاڑیوں کی نفسیاتی الجھن”ارگو فوبیا”۔


ایشیا کپ کی ناکامی نے ناقدین کو ایک بار پھر مصروف کردیا ہے۔ بنگلہ دیش سے شکست کو پندرہ منٹ بھی ٹھیک سے نہ گزرے تھے کہ ہر سطرنے زہراور لفظ نے قہر اگلنا شروع کردیا۔ دکھ یقیننا اپنی جگہہ لیکن حسب روایت اصل وجہ کے بجائے ٹیم کو ہی کوسا جاتا رہا۔ اس بات کی تہہ تک پہنچنے کی کسی نے بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ چیمپئنز ٹرافی میں دھوم مچانے والی ٹیم نے ایشیا کپ میں دھول کیوں چاٹی۔

ایسی ٹیم جس نے چیمپئنز ٹرافی کے بعد انگلینڈ، زمبابوے اور آسٹریلیا کو شکست دی اچانک نیچے کیوں آگری ایسے جیسے کسی نادیدہ قوت نے بلندی سے دھکا دے دیا ہو۔ فخر زمان کا پھنکارتا ہوا بلا یکایک سرد کیوں پڑگیا۔ شاداب کی گیند کا گھماو، حسن علی اور عامر کی گیندوں کی تیزی کو چشم زدن میں کس کی نظر بد لگ گئی۔ سوال اٹھتا ہے آخر کیوں؟ اس کا سادہ جواب ہے “ارگوفوبیا“ یہ فوبیا کی وہ قسم ہے کہ جس میں ہر آن کچھ چھن جانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے مثلا نوکری یا عہدہ وغیرہ۔

اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ ارگوفوبیا کا حملہ اس وقت بھی ہوسکتا ہے جب کامیابیاں سمیٹتے کسی ادارے کا سربراہ یکایک تبدیل ہوجائے اور ادارہ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوجائے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان ٹیم کے ساتھ بھی ہوا۔ یوں تو عہدے داروں کی تبدیلی معمول کا حصہ ہوتی ہے اور اثرات دیر میں محسوس ہوتے ہیں لیکن نجم سیٹھی ایسے وقت مستعفی ہوئے جب ایشیا کپ سر پہ آ پہنچا تھا۔ اب کیا ہوگا؟

کھلاڑیوں کے ذہن میں پہلا سوال، پہلا دباؤ۔ من و عن یہی سوالیہ نشان کوچزاوراسٹاف کے ذہنوں میں بھی گردش کرنا شروع ہوا۔ اس دباؤ کے پس منظر کو چند باتوں نے اور مہمیز کیا
1)وزیراعظم عمران خان لیجنڈ کرکٹر رہے ہیں، کرکٹ کی باریکیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اب بورڈ کے پیٹرن انچیف بھی ہیں۔
2)بوجوہ نجم سیٹھی، بورڈ اور ٹیم پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔
3)اور سب سے اہم یہ کہ وہ ہر شعبے میں ڈرامائی تبدیلی کے خواہاں بھی ہیں۔ یہ تو نظر آرہا تھا کہ ایشیا کپ اسکواڈ میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ “ ٹیم میں میری جگہ بنے گی یا نہیں“

یہی وہ خوف تھا، وہی فوبیا جس نے ٹیم کمبی نیشن کی چولیں ہلا ڈالیں۔ سب کو ٹیم سے زیادہ اپنی فکر لاحق ہوگئی اور جس کے نتائج خراب کراکردگی پر منتج ہوئے۔ وزیراعظم تو اپنی مصروفیات کے سبب میچ دیکھنے نہ جاسکے البتہ احسان مانی جاکر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تو مایوسی، بے یقینی ختم نہیں تو کم ضرور ہوجاتی مگر افسوس ایسی کوئی خبر نہ ملی کہ وہ وہاں گئے ہوں یا کھلاڑیوں اور کوچز سے ملاقات کی ہو جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ٹیم کے چناؤ میں چونکہ ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اس لئے انہیں کسی بھی نتیجے سے کوئی سروکار نہیں۔ مانی صاحب کے ٹوئٹر کا بھی جائزہ لیا جائے تو کرکٹ کے حوالے سے کم، سیاست پر لاتعداد ٹوئٹس نظر آتے ہیں۔

ان کے بیشتر اسٹیٹس پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ وہ پی سی بی کے چیرمین نہیں بلکہ وزیراعظم، وزرا اور پی ٹی آئی کے ترجمان ہیں۔ اب تب میں 2019 کا ورلڈ کپ سر پر آنے والا ہے۔ وقت کم ہے اور ٹیم کو عزم، حوصلہ، جذبہ اور یقین کی ضرورت ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے سات اکتوبر سے آسٹریلیا کے خلاف شروع ہونے والی سیریز ایک بڑا امتحان ہوگی۔ یہی وہ وقت ہے جب ٹیم کو مایوسی اور بے یقینی کی دلدل سے نکلانے کے لئے مثبت قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہار کے خوف کوکھلاڑیوں کے ذہنوں سے نکالنا بہت ضروری ہے اس کے لئے آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے قبل کسی ماہر نفسیات کے سیشنز کار آمد ہوسکتے ہیں۔ ان سب اقدامات کے لئے احسان مانی صاحب کو اپنے اصل کام پر توجہ دینی ہوگی جس کے لئے وزیر اعظم نے ان پر اعتماد کیا ہے بصورت دیگر“ارگوفوبیا“ کا شکارصرف کھلاڑی ہی نہیں وہ خود بھی ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).