میڈیا کی آزادی، تحریک انصاف اور جمہوریت


وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان جمعہ کے روز پہلی بار پشاور کے دورہ پر گئے تھے لیکن اب خبر آئی ہے کہ حکومت نے مقامی سرکاری میڈیا کو بھی وزیراعظم کی مصروفیات کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے لئے مدعو نہیں کیا۔ جب مقامی خبررساں ایجنسی اور دیگر سرکاری اداروں نے اس حوالے سے تحریک انصاف کے تعلقات عامہ کے شعبہ سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم کی مصروفیات کی کوریج کے لئے اسلام آباد سے میڈیا ٹیم آئی ہے اس لئے مقامی صحافیوں کو بتانے یا بلانےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی مصروفیات کے حوالے سے مقامی سرکاری میڈیا کو بھی نظر انداز کرنا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بتایا جاتا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کےمیڈیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور بد اعتمادی کی صورت حال کا پتہ چلتا ہے۔ تاہم ملک کے وزیر اعظم کے عملہ کی طرف سے اختیار کیاجانے والا یہ رویہ میڈیا سنسرشپ اور خبروں پر کنٹرول کے حوالے سے چشم کشا ہے۔

عمران خان اور ان کے ساتھی میڈیا سے اکثر ناراض رہے ہیں ۔ ماضی میں عمران خان ملک کے بڑے میڈیا گروپ کا علی الاعلان بائیکاٹ بھی کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کو گزشتہ پانچ برس میں مقبولیت کے معراج تک پہنچانے میں ملک کے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن وہ میڈیا کی اس نظر کرم کے شکرگزار نہیں رہے ۔ اکثر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو گمان رہا ہے کہ ملک کے ٹیلی ویژن چینل ان کی خبروں کی ترسیل اور ان کے پیغام کو عوام تک پہنچانے میں مناسب مدد فراہم نہیں کرتے۔ عمران خان کو اپنی سوشل میڈیا ٹیم یا ایسے پسندیدہ صحافیوں پر ہی بھروسہ رہا ہے جو متوازن رپورٹنگ کی بجائے پارٹی پروپیگنڈا کو خبر اور رائے کے طور پر پیش کرنے میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کے طور پر کوئی بھی لیڈر کسی بھی چینل کے ساتھ بات کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے تاہم وزیر اعظم کے طور پر کسی لیڈرکو اس قسم کی تخصیص کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ قومی لیڈر کے طور پر ملک کا میڈیا ان کی نقل و حرکت اور قول و فعل کی نگرانی کرنے اور اس کی رپورٹنگ کرنے کا ذمہ داربھی ہو تا ہے اور معلومات کی ترسیل کے حوالے سے میڈیا کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اسے ہر ایسے موقع پر موجود رہنے کی سہولت فراہم کیا جائے۔ تاہم وزیر اعظم کے دورہ پشاورکے موقع پر مقامی سرکاری نیوز ایجنسی اور دیگر میڈیا اداروں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ خبر تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے جو کسی بھی جمہوری سیٹ اپ میں ناقابل قبول رویہ ہے۔

پاکستان کا سرکاری میڈیا روایتی طور پر آزادانہ صحافت کی روایت کا حامل نہیں۔ اس کے رپورٹرز اور نیوز سیکشن میں کام کرنے والے لوگوں کی تربیت اس طور سے کی گئی ہے کہ وہ سرکاری خبروں کو پروپیگنڈا کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سرکاری ریڈیواور ٹیلی ویژن کو وسیع آزادی دینے اور خود مختاری سے رپورٹنگ کرنے کا حق دینے کی نوید دی تھی۔ اس آزادی کا تو پتہ نہیں کیا ہؤا لیکن چند ہی روز بعد حکومت نے اسلام آباد میں واقع ریڈیو پاکستان کی عمارت کو خالی کروانے اور نجی شعبہ کو لیز پر دینے کا اعلان کرتے ہوئے سرکاری نشریاتی ادارے کو یہ عمارت خالی کرنے کا حکم دیا۔ ریڈیو پاکستان کے کارکنوں کے شدید احتجاج اور ملک بھر سے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے بعد اس فیصلہ کو واپس لیا گیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اسے نظر انداز کرنے کا یہ عالم ہے تو اس حکومت کے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے صحافیوں اور رپورٹرز کے ساتھ سلوک کے بارے میں صرف قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔

ملک میں تحریک انصاف ایک تیسری جمہوری قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس کی مقبولیت اور ملک کے جمہوری نظام میں اس کے مقام کی تشکیل میں خبروں کی آزادانہ ترسیل اور بے لاگ تبصروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ بلاشبہ تحریک انصاف اور عمران خان کی متعدد کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے ان کا ناقد بھی ہے اور ماضی میں بھی یہ کردار سامنے آتا رہا ہے۔ تاہم سیاسی لیڈر کے طور پر عمران خان اور سیاسی پارٹی کے طور پر ان کی پارٹی تحریک انصاف کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ جمہوری سیاست میں وہ آزاد میڈیا کے بغیر زیادہ دیر کام نہیں کرسکتے۔ اگر حکومت میڈیا کے حوالے سے فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور تبصرہ نگاروں سے خوشامد اور رپورٹروں سے خبر کی بجائے قصیدے سننے کی خواہش کو پروان چڑھائے گی تو وہی جمہوری نظام کمزور ہو گا جس کا سہارا لے عمران خان اس وقت ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوپائے ہیں۔ سرکاری تقریبات اور وزیر اعظم کی نقل و حرکت کے بارے میں ہمہ قسم سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی میڈیا کے تمام اہم چینلز کو بھی مطلع کرنا اور مناسب سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی بنیادی جمہوری ذمہ داری ہے۔

تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے عمل میں ملک کے میڈیا کو جس دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اپنی جگہ ایک المناک داستان ہے۔ میڈیا مالکان کو سیلف سنسر شپ اختیار کرنے کا حکم دینے کے علاوہ اس بات کا اہتمام کیا گیا تھا کہ خاص طرح کی خبروں کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے اور ایک خاص سیاسی نقطہ نظر کو مسترد کرنے والے تبصروں، ٹیلی ویژن پروگراموں اور رائے کو روکنے کا اہتمام کیاجائے۔ ملک کے صحافیوں کی تنظیمیں سنسر شپ کے حوالے سے عائد پابندیوں پر احتجاج بھی کرتی رہی ہیں اور اس طرف توجہ بھی مبذول کروائی جاتی رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کو خود جان کے لالے پڑے تھے اور حالات اس کے کنٹرول سے باہر تھے۔ انتخابات کی نگرانی کے لئے بننے والی نگران حکومتوں نے میڈیا کی آزادی کو جمہوری عمل کی خود مختاری اور شفافیت کے لئے ضروری نہیں سمجھا، حتیٰ کہ ان حکومتوں کو تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ انتخابات دھاندلی سے پاک رہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ حکومتیں تو اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے فارغ ہوگئٰیں لیکن جولائی میں ہونے والے انتخابات پر بدگمانی اور شبہات کا سایہ موجود ہے۔ اپوزیشن موجودہ حکومت کو منتخب ماننے کی بجائے ’نامزد‘ حکومت ہونے کی پھبتی کستی ہے۔ جس طرح آزاد ارکان اور متعدد چھوٹی پارٹیوں نے تحریک انصاف کے لئے اقتدار کی راہ ہموا ر کی ہے، اس کی وجہ سے بھی عمران خان کو ’چہیتے‘ سیاسی لیڈر کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس ملک میں چہیتوں کو پالنے والے وہی عناصر ہیں جو میڈیا کی آواز دبانے اور مزاحمت کرنے والے اخباروں یا ٹیلی ویژن اداروں کو انتقام کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہوئے اس تاثر کو سختی سے مسترد کیا تھا کہ وہ عسکری اداروں اور عدلیہ کی مہربانی سے انتخاب جیتنے اور اقتدار سنبھالنے کے قابل ہوئے ہیں۔ لیکن جس طرح وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بے گانہ بنے ہوئے ہیں بلکہ میڈیا سے فاصلہ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اس سے ان کے جمہوری عزائم اور ارادوں کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف ایک جمہوری پارٹی ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے عوام سے ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی ہے۔ اگر وہ عوام کی حمایت سے ملنے والے اس اقتدار کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ جمہوریت کی اساس کے خلاف ہو گا۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد ان رکاوٹوں اور مشکلات کو رفع کریں گے جو ملک کے صحافیوں کو درپیش ہیں۔ خبر کی فراہمی میں صرف اس بنیاد پر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جائے گی کہ حکومت کسی ادارے یا اس کے نمائیندے کے طرز عمل، حکمت عملی یا لکھنے اور بولنے کے انداز کو پسند نہیں کرتی۔ میڈیا کو مکمل آزادانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع فراہم کئے بغیر کوئی بھی جمہوری حکومت عوامی حکمرانی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ آزاد میڈیا کسی بھی جمہوری حکومت کا ناقد بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ اس کا سب سے بڑا محافظ بھی ہوتا ہے۔ آزاد حرف پر یقین رکھنے والا صحافی کسی بھی جمہوری حکومت کے خلاف غیر جمہوری اداروں کے اقدامات کی حمایت نہیں کرسکتا بلکہ منتخب حکومت خود مختار اور آزاد میڈیا کےذریعے غیر جمہوری قوتوں کے سیاسی عزائم کے سامنے بند باندھنے کا کام کرسکتی ہے۔

بدنصیبی سے تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم ابھی تک میڈیا کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے میں کوئی قابل ذکر اقدام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب بھی سینئر صحافیوں کے کالم شائع کرنے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ میڈیا ہاؤسز اب بھی سیلف سنسر شپ کے پابند ہیں اور عامل صحافی مالکان کی خواہش پوری کرنے پر مجبور ہے۔ یہ صورت حال تبدیل کرنا عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی بنیادی اور اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اسی طرح وہ یہ واضح کرسکتے ہیں کہ موجودہ حکومت منتخب ہوئی ہے، نامزد نہیں کی گئی۔ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائے بغیر نہ کوئی لیڈر خود اپنے لئے وقار کا سبب بن سکتا ہے اور نہ ملک میں جمہوری روایت کی سربلندی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ میڈیا کو پابند، محدود یا نظر انداز کرنے والا لیڈر دراصل اسی شاخ کو کاٹنے کا سبب بنتا ہے جس پر اس کے اقتدار کا آشیانہ بنا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali