انشا جی اٹھو، پھر چین چلو


چلتے ہو تو چین کو چلیئے سفرنامہ بچپن میں پڑھا تھا۔ پھر اس سر زمین پر کہ جہاں مارکوپولو اور ابن بطوطہ کے بعد انشا جی نے قدم رنجہ فرمایا، جانے کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ریسرچ آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص چنگیز خان کی اولاد ہے کیونکہ خان صاحب کو شادیاں کرنے کا بہت شوق تھا، اور نا کرنے کا بھی۔ چنانچہ بیجنگ میں ایک ہی شکل کا ہزار ہا بندہ دیکھ کر اس ریسرچ پر یقین سا ہونے لگا اور وہ گھسا پٹا لطیفہ بھی کہ اس عورت کا شوہر یقیناً چینی ہو گا جو کہتی تھی کہ تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، سچا لگنے لگا۔

چینی گرم پانی بہت پیتے ہیں اس بات کا عملی مظاہرہ تو پرواز شروع ہوتے ہی ہو گیا۔ ماسوائے چند نوجوانوں کے مجال ہے کسی مرد یا عورت نے کالے پیلے گیسی مشروباتِ فرنگیہ کو چکھا بھی ہو۔ ہر کسی کے پاس اپنا تھرماس یا پانی کی بوتل ہے، اسی کو بھرتے اور پیتے ساری پرواز گزار دی۔

کسٹم اور امیگریشن سے فارغ ہو کر میں باقی ساتھیوں کا انتظار کرنے کے لیئے کاﺅنٹر کے پاس کھڑا ہو گیا۔ ہال تقریباً خالی تھا ۔ ایک چاق و چوبند چینی لڑکی کسی دوسرے کاﺅنٹر سے نکلی۔ پتلون کا ایک پائنچہ پنڈلی تک کٹا ہوا، سر پر بڑا سا ہیٹ جس میں سے بال بے ہنگم طریقے سے لہرا تے ہوئے، دھوپ کا چشمہ کہ جسکا ایک شیشہ نارنجی اور دوسرا بینگنی رنگ کا، تیزی سے چلتی ہوئی ایک کمرے میں گھس گئی۔ میں نے سوچا کہ شاید چین میں یہ ہی جدید فیشن ہے یا پھر لڑکی کا تعلق یقیناً کسی غریب گھرانے سے ہو گا۔ خیر جب سب ساتھی اکٹھے ہو گئے تو ہم باہر نکلے۔ دروازے سے قدم نکالنے کی دیر تھی کہ ایک کہرام مچ گیا، لوگ ہاتھ ہلا ہلا کر پرجوش طریقے سے استقبال کر رہے تھے۔ موبائل کیمروں کے فلیش سے آنکھیں چندھیا گئیں۔ فرط جذبات سے میرے رونگٹے اور ہاتھ جوابًا کھڑے ہونے ہی والے تھے کہ دودھ کے اس ابال پر قدرت نے یخ بستہ پانی کا تروکہ کڈ مارا۔ وہ اوٹ پٹانگ لڑکی ہمارے پیچھے ہی آ رہی تھی۔ اور جیسے ہی آگے نکلی تمام ہجوم اسکے پیچھے یاں ماں پاں کرتا ہوا بھاگ پڑا۔ پتہ یہ چلا کہ موصوفہ کوئی بہت مشہور پاپ سٹار ہیں اور یہ سارا ہجوم انکے فینز کا تھا۔

بس میں بیٹھ کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ بڑے بوڑھوں سے سن رکھا تھا کہ چین میں سائیکلیں ہی سائیکلیں ہوتی ہیں۔ مشکل سے کوئی ایک آدھی ہی نظر آئی بلکہ آدھی ہی سمجھیں کیونکہ اس میں بھی موٹر لگی ہوئی تھی۔ ہر جگہ گاڑیوں کی بھرمار۔ ہر نیا ماڈل اس شہر میں موجود۔ انشا جی کے سفرنامہ کی ایک سطر یاد آ رہی تھی کہ ” چین میں عورت نہیں ہوتی“۔ بالکل ہوتی ہے جناب۔ وہ زمانے چلے گئے جب سب ایک ہی طرح کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے اور مرد اور عورت میں پہچان مشکل تھی۔ تو صاحبو چین میں صنف نازک کا وجود تو ہے لیکن بالکل یخ بستہ خواتین ( یعنی کہ انگریزی میں کووول، سمجھ تو آپ گئے ہوں گے)۔ اور اوپر سے ہیں بھی ساری پیلی پیلی۔ چونکہ ان لوگوں کو ” پیلی نسل “ کہا جاتا ہے لہذا پیلی پیلی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سچ پوچھیں تو بندہ جب یورپ اور امریکہ کے بعد چین جائے تو، بلکہ کیوں جائے یار، میں تو کہتا ہوں نہ ہی جائے۔ آجکل شب و روز ایسی تحاریر نظر سے گذرتی ہیں جس میں مردوں کے بے قابو جذبات اور ہیجان کی کیفیات بمعہ غیرت و بے غیرتی کے مسائل پر تابڑ توڑ بحث ہو رہی ہوتی ہے۔ میری مانیں ، اگر ایسا کوئی سستا گھٹیا اور غیر معیاری مرد آپ کی نظر میں ہے تو اسے فوراً سے پہلے چین بھیج دیں۔ قسم خدا پاک کی اسکا ہیجانی درجہ حرارت منفی درجوں میں نہ چلا جائے تو کہیے گا۔

بہت بڑا مسئلہ بیجنگ میں زبان کا درپیش ہوا۔ عام چینی کو انگریزی بالکل نہیں آتی بلکہ مجھے تو یہ لگا کہ وہ چینی زبان بھی صحیح نہیں بولتے۔ بھلا بتائیں کہ کوئی زبان صرف ش اور نون غناں پر چل سکتی ہے۔ جو بندہ بھی بولتا تھا صرف یہ سمجھ آتی، ملاحظہ کیجیئے کہ شاں شں شنغلںںںششںں۔ ہوٹل میں استقبالیے پر فون کیا اور انگریزی میں بہت مشکل سے پانچ سات منٹ لگا کر بتایا کہ دو پلیٹیں چاہییں۔ چند منٹ بعد ایک خاتون دو تولیے لے کر آ گئیں۔ پھر اسکو کچھ دیر لگا کر سمجھایا کہ کیا چاہیے۔ وہ گئی اور دس منٹ بعد پانی کی دو بوتلیں لے آئی۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے اپنا سر پیٹا پھر دوبارہ اس کو ایک تصوراتی پلیٹ بنا کر دیکھائی ۔ میرا ساتھی اسے مسلسل ”پلیٹاں پلیٹاں“ کہے جا رہا تھا کہ شاید نون غناں والا فارمولا لگ جائے۔ آخر کار اس مرتبہ ”پلیٹاں“ آ گئیں۔

تفریح کے لیئے سب سے پہلے دیوار چین کا رخ ہی کیا۔ بیجنگ سے تقریباً تیس چالیس میل کا فاصلہ ہے۔ قدیم روایات کے مطابق اس دیوار کی طوالت دس ہزار میل بتائی جاتی تھی اور آج کل کی روایات کے مطابق یہ صرف ڈیڑھ سے دو ہزار میل کی رہ گئی ہے۔ یہ عظیم شاہکار تقریباً دو ہزار تین سو سال سے زیادہ پرانا ہے مگر ٹھیکیدار مجھے اس کا اپنا کوئی دیسی ہی لگتا ہے۔ کہیں سیڑھی کا قدم تین فٹ کا ہے تو کہیں فٹ بھر کا بھی نہیں۔ کہیں سیڑھی ہے ہی نہیں بالکل ڈھلان ہے۔ خیر مذاق اپنی جگہ، ان دو ہزار سالوں میں اس کو بہت نقصان بھی پہنچا ہے خاص طور سے تیرھویں صدی میں منگولوں کے ہاتھوں جن کا خاتمہ بعد ازاں منگ بادشاہت نے کیا۔

یہ واقعی ہر چیز کھا جاتے ہیں۔ ان کے بازاروں میں حشرات الارض و سما اور مخلوقات بحریہ کی وہ وہ اقسام دیکھیں کہ کچھ دیر کے لیئے اپنا کھانا موقوف کرنا پڑا۔ نہیں بتا سکتا آپ کو بس یہ سمجھیں کہ اشرف المخلوقات کے علاوہ سب حلال ہے چینیوں کے ہاں۔

شاذ و نادر ہی کوئی شخص موٹاپے کا شکار نظر آیا۔ مبالغہ سے ہٹ کر ، کوئی بوڑھا وہیل چیئر پر نہیں تھا۔ اسی نوے سال کے بابے بھی اپنے پاﺅں پر چلتے نظر آئے۔ اور بہت بوڑھے لوگ نظر آئے۔ لگتا ہے حکومت نے اسی لیئے ایک بچہ کرنے پر پابند کیا تھا سب کو کہ مر تا تو کوئی ہے نہیں اس لیے پیداوار کم رکھی جائے۔

بھاؤ تاؤ کرنا آتا ہے تو آپ کے لیئے چینی بازار بہترین جگہ ہیں۔ آپ نے اکثر پٹھان بھائیوں سے بارگیننگ کی ہو گی۔ بھول جائیں گے آپ۔ ایسا بھاﺅ تاﺅ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ چینی دکاندار غصے میں جلد آ جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ تو خاصی منہ ماری ہو گئی۔ میں ایک بیگ لینے گیا۔ جوان کے بچے نے سیدھا ہی آٹھ سو یوان کہہ دیا۔ میں قیمت سنتے ہی آگے چل پڑا تو فوراً تین سو پر آ گیا۔ خیر جب میں وہ بیگ چالیس یوان کا لے کر ہوٹل پہنچا تو پتہ چلا پانچ زیادہ دے آیا ہوں ، ایک اور ساتھی وہی بیگ پینتیس یوان میں لے کر آئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے دنیا بھر میں زیادہ تر کنٹریکٹ بھی اسی لیے چین کو مل رہے ہیں۔ یہ دو ارب مانگتے ہوں گے اور کچھ دیر بعد پچاس لاکھ میں معاملہ طے۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments