اپنے اپنے موبائل فون پہ مصروف دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگتا


آج کل شامیں خوبصورت لگتی ہیں۔ دھوپ کی شدت پہلے جیسی نہیں، سہ پہر کے وقت دھوپ کی ہلکی سی حرارت بدن کو بھلی لگتی ہے، اور پھر اس کے ساتھ نرم ہوا کے جھونکے اور بھی پیارے لگتے ہیں۔ ایسے میں کسی پارک کا رخ کرنے سے بہتر کیا ہو گا۔ یہ پارک زیادہ وسیع و عریض تو نہیں مگر پارک ہونے کے سب تقاضے پورے کرتا ہے۔ ایک سی بچھی ہری گھاس، کیاریوں میں لگے پھول پودے، مختلف قسم کے جھولے، کناروں پہ لگے کچھ درخت، اور پارک کے عین وسط میں دو بہت بڑے پرانے درخت جن پر بےشمار چڑیاں بیٹھی خوب شور مچاتی ہیں۔

واکنگ ٹریک پر مختلف عمر کے لوگ دکھائی دیتے ہیں، عمررسیدہ خواتین ہاتھوں میں تسبیح تھامے دھیرے دھیرے چل رہی ہیں کچھ دور چلنے کے بعد وہ رک جاتی ہیں اور ساتھ ہی تسبیح بھی روک لیتی ہیں اور باتوں میں مصروف ہو جاتی ہیں چند لمحے خوش گپیاں کرنے کے بعد ان میں سے کوئی ایک خاتون قدم اٹھاتی ہے اور اس کی دیکھا دیکھی باقی سب بھی دوبارہ سے چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ مرد حضرات جو تیس سے چالیس کے پیٹے میں ہیں شارٹس اور ٹی شرٹ پہنے جاگنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور خواتین جاگنگ کے بجائے حتی الامکان تیز واک کرنے کی کوشش میں ہوتی ہیں ۔ ان میں سے کچھ نے پرام پکڑا ہوتا ہے جس کے اندر لیٹا اک چھوٹا سا بچہ آنکھیں گھما گھما کے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

ٹین ایج لڑکیاں گروپ کی صورت میں باتیں کرتی اور اپنی ہنسی روکتی نظر آتی ہیں اور کچھ شرارتی لڑکیاں بچوں کو پرے ہٹا کر خود جھولوں پر چڑھ جاتی ہیں اور جھولا جھولنے کے ساتھ ساتھ یہاں وہاں دیکھ کر اس بات کا اطمینان بھی کرتی ہیں کہ کوئی انہیں دیکھ تو نہیں رہا۔ خوشی کے ساتھ حیا کا تاثر بھی ان کے چہرے پہ نمایاں نظر آتا ہے۔ نو عمر لڑکے ایک ٹیم کی صورت میں کرکٹ یا فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں یہاں بھی ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے، آٹھ نو برس کے بچے جو اپنے آپ کو اب بڑا سمجھتے ہیں مسلسل ضد میں ہوتے ہیں کہ انہیں بھی ساتھ کھلایا جائے مگر زیادہ تر انہیں یہ کہہ کہ بھگا دیا جاتا ہے کہ یہ بڑوں کی گیم ہے آپس میں کھیلو۔ چھوٹے بچے تو کھیلنے میں سب سے زیادہ خوبصورت لگتے ہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر کوئی پکڑن پکڑائی کھیلتا ہے تو کوئی آنکھ مچولی۔ کھیلتے وقت خوب شور مچاتے اور قہقہے لگاتے ہیں۔

کھیلتے کھیلتے تھوڑی سی دیر میں آپس میں ان بن ہو جاتی ہے اور چیٹر چیٹر cheater کا شور مچ جاتا ہے تب ہی اس ٹولی میں موجود کوئی نسبتاً سیانا بچہ ان کی آپس میں صلح کرا دیتا ہے اور کھیل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ صلح اور لڑائی کا یہ سلسلہ اور شوروغل ایسے ہی چلتا رہتا ہے کہ اتنے میں آئسکریم والا، چھلی والا یا غبارے والا آ جائے تو سب بچے کھیل چھوڑ کر اس کی طرف لپکتے ہیں۔ کچھ نے چیز لی اور جن کے پاس فی الحال پیسے موجود نہیں وہ گھروں کی طرف دوڑے مگر جانے سے پہلے انکل کو یہ ہدایت دینا نہیں بھولتے کہ جانا نہیں میں ابھی پیسے لے کر آتا ہوں۔

پارک میں موجود بنچوں پر کہیں تو شادی شدہ جوڑے بیٹھے باتوں میں مصروف ہیں اور کہیں دوست۔ ان سب کو دیکھ کر لگتا ہے کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے جس میں سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ زندگی جس میں خوشی ہے، پیار ہے، احساس ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کا ساتھ ہے۔ پتہ نہیں کیوں میاں بیوی، بہن بھائیوں، یا دوستوں کو ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اپنے اپنے موبائل فون پہ مصروف دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).