اقوام متحدہ اور واہگہ کی پریڈ


شام کا وقت تھا، کوئی دو میل قبل گاڑیاں کھڑی کروا دی گئیں، اب یہاں سے پیدل جانا تھا۔ چیدہ چیدہ گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت تھی۔ ان پر شاید خاص قسم کا اسٹیکر چسپاں تھا۔ اتنی مسافت کے بعد منزل مقصود پر پہنچے تو سیڑھیوں کی شکل میں فرش پر بیٹھنا پڑا جبکہ چند افراد کے لیے صف اول میں آرام دہ کرسیاں لگ گئیں۔ حسد محسوس کیا تو پتہ چلا یہ ہمارے عسکری بھائی ہیں، انہی کی بدولت یہ ملک قائم ہے وگرنہ جس بارڈر واہگہ پر ہم موجود ہیں دشمن کب کا اس کے ذریعے ہمیں غلام بنا چکا ہوتا۔ لہذا خاموشی اختیار کرلی۔

جلد ہی پریڈ کا انعقاد ہونا تھا۔ مگر اس سے قبل ہی دونوں جانب سے زبردست نعرے بازی شروع ہوگئی۔ سرحد کے اس پار سے ہندوستانی نعرے بازی کرتے تو ہمارے یہاں سے بھرپور انداز میں جواب دیا جاتا۔ یہ ایک جنگ کا سا ماحول بن گیا۔ اس کے بعد پریڈ ہوئی۔ پریڈ کیا تھی۔ مقابلہ تھا۔ کون سے ملک کا فوجی زیادہ اونچی ٹانگ اٹھاتا ہے اور کس ملک کے فوجی کی ایڑی زمین کی اونچی چیخ نکلواتی ہے۔ ان سب کے درمیان گونجتے ہوئے نعرے تھے۔ جلد ہی دونوں ممالک کے پرچم سرنگوں ہوئے اور تقریب کا اختتام ہوگیا۔ میں وہیں بیٹھا یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ تماشا میں تھا یا تماشبین میں؟ میں ہی پیدل بھی چلا، میں ہی زمین پر بھی بیٹھا، میں نے ہی ہندوستان مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ تو پھر تماشا کس نے دیکھا؟ صف اول میں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے چند افراد نے! دوسرا سوال تھا اس ننھی سی جنگ میں جیتا کون؟

حال ہی میں اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا، دنیا بھر سے ممالک کے نمائندے یہاں اکٹھا ہوئے۔ وطن عزیز سے یہ شرف شاہ محمود قریشی کو حاصل ہو تو بھارت کی جانب سے سشما سوراج کو۔ دونوں کی تقریروں پر مجھے رتی برابر حیرانی نہیں ہوئی۔ شرمندگی مگر ضرور محسوس کی۔ بھارت نے پاکستان پر دہشتگرد ملک ہونے کا الزام لگایا اور وزن پیدا کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کی مثال دی۔

پاکستان بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ پاکستان نے بھی بھارت پر دہشتگردی کا الزام لگایا اور دلیل کے طور پر کلبھوشن یادیو کی مثال پیش کی۔ اس ہی طرح دونوں ممالک نے حال ہی میں ملتوی ہونے والے امن مذاکرات کی منسوخی کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ گویا پوری دنیا ایک طرف خاموشی سے بیٹھی اور ہمیں بولنے کا موقع دیا۔ اور ہم نے دکھایا تماشا۔ ایک الزام بھارت سے آیا تو دوسرا پاکستان سے۔ مان لیجیے دو پڑوسی ممالک نے ایک دوسرے کو ننگا کیا اور تماشا ساری دنیا نے دیکھا۔ حالانکہ اس موقع پر دونوں ممالک اپنی اپنی کامیابیاں بھی گنوا سکتے تھے۔ بھارت اپنی معیشت، آئی ٹی، انڈسٹری، پروڈکشن، تعلیم، سیکولرآئین وغیرہ بیچ سکتا تھا جبکہ پاکستان انسداد دہشتگردی کےلیے کی گئی جنگ اور دی گئیں قربانیاں، قائم ہوا امن، شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع، وغیرہ، وغیرہ۔

بھارت کشمیر میں کیا کررہا ہے، کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔ ممالک کے درمیان دوستیاں ہوا کرتی ہیں نہ ہی دشمنیاں۔ پھر بھائی چارہ تو مذاق سی بات ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں ہوا کرتے ہیں تو محض مفادات۔

موجودہ صورتحال میں اگر پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی بات کو سچ تسلیم کرلیا جائے تو دونوں ممالک ہی دہشتگردوں اور لڑاکا پڑوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اقوام متحدہ کے اجلاس سے دونوں ممالک نے کیا حاصل کیا؟ ایک دوسرے کو برا ثابت کرنے کے علاوہ؟ یہ محض واہگہ بارڈر پر ایک پریڈ تھی، جہاں سشماسوراج، شاہ محمود قریشی تماشا تھے اور باقی ساری دنیا تماشائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).