کرشن چندر سے بڑا ادیب



ملک کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاوس سے اس کا معاہدہ ہوگیا تھا، کہ وہ اُس کی کہانیوں کا مجموعہ شایع کریں گے۔ گزشتہ دس بارہ برسوں میں جو کہانیاں لکھی تھیں، انھیں کوئی شایع کرنے کو تیار نہ ہوا تھا۔ جس جس پبلشرز کے پاس گیا، اُس نے کتاب شایع کرنے کے لیے رقم مانگی۔ ہارون کا کہنا یہی تھا، کہ وہ ادیب ہے، تاجر نہیں؛ لہاذا وہ کیوں سرمایہ لگائے۔ اسے شکوہ تھا، کہ ہمارے یہاں ادیب کی وقعت نہیں، جو یوروپ اور امریکا میں ہے۔ ہارون شوقیہ ادیب تھا۔ ادب سے پیٹ نہیں بھرتا، پیٹ بھرنے کے لیے واپڈا کی ملازمت تھی، جہاں وہ سب انجینئر تھا۔

پاکستان پبلشرز کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا، لیکن بہت جلد پبلشنگ میں ایک نمایاں پہچان بنا لی تھی۔ پاکستان پبلشرز نام ور ادیبوں کا کام شایع کرتا ہی تھا، لیکن بہت سے نئے لکھنے والوں کو بھی سامنے لایا تھا۔ ہارون کا پہلا افسانوی مجموعہ شایع ہوا، تو فلیپ اردو ادب کے سب سے بڑے ادیب نے لکھا۔

’’ہارون مشتاق کے یہاں خیالات کی جو ندرت ہے، یہ انھیں معاصر ادیبوں میں سب سے جدا مقام پہ لا کھڑا کرتی ہے۔ ہارون کہانی ہی نہیں کہتے، اس میں تہہ در تہہ معنی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا افسانہ کرشن چندر کے افسانوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا، کہ جہاں کرشن چندر نے اختتام کیا، ہارون مشتاق وہاں سے آغاز کرتے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اردو ادب کو ہارون مشتاق کی صورت، ایک بڑا ادیب مل گیا ہے۔ مجھے اردو ادب کا مستقبل تاب ناک دکھائی دیتا ہے‘‘۔

یہ پڑھ کے ہارون کا سینہ فخر سے تن گیا تھا۔ یہ تو وہ جانتا تھا، کہ کہانی لکھنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں، لیکن وقت کے بڑے ادیب نے اس پہ گویا مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ دیباچہ اردو ادب کے معروف ناقد نے لکھا تھا، جس میں اس نے ہارون کے افسانوں کے وہ وہ مفہوم نکالے تھے، جس کا خود ہارون کو بھی ادراک نہ تھا۔ اردو میں جہاں بڑے سے بڑے ادیب کی کہانیاں پانسو کی تعداد میں چھپتی تھیں، اسے پاکستان پبلشرز نے پانچ پانچ ہزار کی تعداد میں شایع کیا۔ یہی نہیں ان کی شایع کردہ ہر کتاب کا دوسرا تیسرا اڈیشن بھی شایع کیا جاتا۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان میں کتاب پڑھنے والے نہیں ہیں۔

ہمارے یہاں پرانے طرز کے اداروں نے جدید مارکیٹنگ کے اصول ہی نہیں اپنائے۔ اس کمی کو پاکستان پبلشرز نے پورا کیا۔ ہارون کے افسانوی مجموعے ’’چاند کی مہک‘‘ پر اردو اخبارات میں تو کالم لکھے ہی گئے، انگریزی اخبارات نے بھی اس مجموعے پر تبصرے لکھے۔ ہارون کو کتاب کی تقریب رُونمائی کے لیے پندرہ شہروں میں بھیجا گیا، جس کا تمام تر خرچہ پاکستان پبلشرز ہی نے اٹھایا۔ اس کے علاوہ شہر کی ادبی تنظیموں نے ہارون کے اعزاز میں تقریبات رکھیں۔

یہ وہی ہارون تھا، جس کو پہلے کوئی جانتا تک نہیں تھا، ماننا تو دُور کی بات ہے۔ اپنے شہر کے ادیبوں میں بھی اسے توجہ نہ ملی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہارون کے ساتھ ہوا۔ بڑے شاعر، بڑے ادیب ایسے گزرے ہیں، جنھیں ان کی زندگی میں کسی نے نہیں پہچانا۔ مرنے کے بعد ان کے کام کا چرچا ہوا۔ ہارون تو پھر خوش قسمت تھا، کہ جیتے جی سراہا جا رہا تھا۔

جہاں ہارون کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا، وہیں چند حاسدوں نے تنقید بھی کی۔ اس شور میں ان کی آواز کون سنتا۔ ناقدین کا خیال تھا، ہارون کو کرشن چندر ثانی کہنا، اردو ادب پہ ظلم ہے۔ یہ معمولی درجے کے افسانے ہیں۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جسے کرشن چندر کے کم سے کم تر افسانے کے برابر بھی سمجھا جائے۔ وہ جانتا تھا، کہ اس کے مسلک کی وجہ سے، نیز اس کا چھوٹے صوبے سے تعلق ہونے کی وجہ سے، اس پر تنقید کر کے تعصب برتا جا رہا ہے۔

ہارون جہاں اپنے پہلے افسانوی مجموعے کی اشاعت پر اپنی پذیرائی کو لے کر کے خوش تھا، وہیں اس نے اپنے دوسرے مجموعے کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ خیال تھے کِہ اُس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے۔ محض دو مہینوں میں اس نے پندرہ بیس افسانے لکھ لیے تھے۔ ظاہر ہے سبھی کے سب ادبِ عالیہ کے شاہ کار تھے۔ اس بار پاکستان پبلشنگ ہاوس نے اس کے دوسرے مجموعے کو شایع کرنے سے انکار کردیا۔

’’بہت نقصان ہوا ہے، ہمیں۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ آدھی سے زیادہ کتابیں اسٹور میں پڑی ہیں، جنھیں ردی کے بھاو بیچنا ہوگا‘‘۔

ادارے کی طرف سے یہ جواب پا کر ہارون کو شدید صدمہ پہنچا۔ اردو ادب کے سب سے بڑے ادیب نے اسے کرشن چندر ثانی کہا تھا، اور یہ ہیں کہ ادیب کا مقام پہچاننے سے انکاری ہیں۔ اسے وہ تمام تر قصے یاد آئے جو پبلشرز سے منسوب ہیں۔ یہ پبلشرز ادیب کا استحصال کرتے ہیں۔ خود تو لاکھوں کماتے ہیں، لیکن ادیب کو کچھ دینا پسند نہیں کرتے۔ اُس نے سوچا کہ وہ اپنا مجموعہ خود شایع کرے گا۔

ہارون نے کاغذ، پرنٹنگ اور جلد بندی کے بھاو معلوم کیے، تو اسے اندازہ ہوا، کتاب ایک لاکھ کی چھپے گی، تو اس کی فروخت سے دُگنی آمدن ہو گی۔ ایک ہزار کی تعداد میں بھی چھپوائے تو برا نہیں ہے۔ اس کا مقصد کتاب سے کمائی کرنا نہیں تھا، بل کہ وہ ادب کے قارئین تک بہ ترین ادب پہنچانا چاہتا تھا۔ اردو ادب کی خدمت ہی مقصود ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ اسی بڑے ادیب سے فلیپ لکھوائے گا، جس نے اسے کرشن چندر ثانی بتایا ہے۔ ایسے ہی کسی معروف ادبی شخصیت سے افسانوں کا ادبی محاکمہ کروائے گا۔ خواہ اس کتاب کی اشاعت سے اسے کچھ نہ بچے، اردو ادب میں اس کا نام تو زندہ رہے گا۔ پھر ایک وقت آئے گا، کہ اس کی کتابوں کو چھاپ چھاپ کر یہ چور پبلشرز اپنا نظام چلائیں گے۔

جب ہارون اس ادیب کے یہاں پہنچا، جس نے اس کی پہلی کتاب کا فلیپ لکھا تھا، تو اس نے ہارون کو پہچاننے سے صاف انکار کردیا۔ ہارون اپنا پہلا مجموعہ ساتھ لے کر گیا تھا، کہ اس بڑے ادیب کو اپنے دست خط کے ساتھ ہدیہ کرے گا۔ ادیب نے فلیپ دیکھ کر کتاب کو بے دلی سے ایک طرف رکھ دیا۔

’’یہ تو میں نے پبلشرز کے کہنے پر لکھا تھا۔ ایسے بہت سے نوٹس میں قیمتہ لکھ کر دیتا ہوں۔ نئے ادیبوں کی کتابوں پر فلیپ لکھ کر اتنا کما لیتا ہوں، جتنا ادب لکھ کر نہیں کمایا‘‘۔
ہارون یہ جواب سن کر ششدر رہ گیا۔
’’اتنا بڑا ادیب اور۔۔ اتنی چھوٹی بات‘‘!

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran