غریب کی ماں یا شیطان کی خالہ


ایک مشہور کہاوت ہے، جُل کراچی موج کمائیاں! دھوتی لا کے پینٹا پائیاں۔ (کراچی چل کے موچ کی کمائی کی ہے، دھوتی اتار کے پینٹیں پہنی ہیں)۔

یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان بھر سے مزدور و محنت کش افراد کراچی کو غریب کی ماں سمجھتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر ملک کے مختلف علاقوں سے روزگار کی تلاش میں نقلِ مکانی کرتے ہیں اسی طرح اُن محنت کش افراد کے ساتھ ساتھ مجرمانہ سوچ رکھنے والے افراد بھی کراچی کو شیطان کی خالہ سمجھ کر کراچی چلے آتے ہیں نتیجتاً شہر میں ہر قسم کے جرائم کی شرح روز بہ روز بڑھتی چلی جا رہی ہے اور جرائم بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ بے روزگاری کی آفت بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی شہر جو کبھی اپنی رونقوں کے لئے مشہور تھا آج وہ شہر گناہگاروں کی جنت بنا ہوا ہے۔ جو شہر کھبی زندگی سے بھر پور تھا آج بے حسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جس شہر کی سڑکیں پانی سے دھلا کرتیں تھیں آ ج وہ شاہراہیں خون سے رنگین ہیں۔ وہ گلی محلے جہاں بچوں کی قلقاریاں سنائی دیتیں تھیں وہاں بی دبی چیخیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ وہ جوان جو کبھی پر جوش ہوا کرتے تھے آج سہمے سہمے رہتے ہیں۔

یوں تو کراچی شہر میں روزانہ کی بنیاد پے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی وارداتیں ہوتی ہی رہتی ہیں، جو شہر کے ہنگاموں میں کہیں کھو جاتی ہیں یا شاید لوگ ان حالات کے عادی ہو چکے ہیں لیکن کچھ دنوں سے چھوٹے بچوں کو اغوا کرنے اور پھر مبینہ طور پر اُن کے جسمانی اعضاء نکالنے کی وارداتوں کی خبروں میں کافی اضافہ ہو گیا ہے جو نہایت تکلیف و ذہنی کوفت کی وجہ بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر وہ والدین جن کے بچے اسکولوں یا مدارس میں زیرِ تعلیم ہیں اور اسکول و مدارس کی انتظامیہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جس کی روک تھام کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی ابھی تک سرکاری سطح پر عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

بچہ اغوا ہو جاتا ہے اور پھر کسی دن اُس کی لاش ملتی ہے اور قانون نافض کرنے والے ادارے سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والی فوٹیج ہی دیکھتے رہ جاتے ہے۔ بعض اوقات خود پولیس والے بھی ان جرائم کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کئی گھرانے اُجڑ چکے ہیں، جانے کون ہمیں اس بے حسی کی دلدل سے نکالے گا۔
الغرض اس جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام نے پاکستان اور بالخصوص شہرِ کراچی کو فلاحی ریاست کے بجائے ایک خلائی ریاست بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حالات پر رحم فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).