آواز کی دنیا: ریڈیو پاکستان ایک سرمایہ



, 3جون 1947ء کو بابائے قوم قائد اعظم ؒ کی آواز میں تحریک ِ پاکستان کی کامیابی کی نوید بذریعہ آل انڈیا ریڈیو سے ملی ۔ بعد ازاں غلامی کے طویل سناٹے میں 13اور 14اگست کی درمیانی شب کو مصطفی علی ہمدانی کی آواز ہوا کی لہروں پہ کچھ اس طرح گونجی’’اسلام علیکم ! پاکستان براڈ کاسٹنگ ان سروس، ہم لاہور سے بو ل رہے ہیں،13اور14اگست سن 47کی درمیانی رات بارہ بجے ہیں ۔ طلوعِ صبحِ آزادی!‘‘پھر قومی ترانہ آواز کی لہروں پہ ملک بھر میں گونجتا رہا اور لوگوں کی آنکھوں سے خوشی و غمی کے ملے جلے آنسو بادل کی طرح برستے رہے ۔ ظہور آذر نے یہ اعلان انگریزی میں کہا ، ظاہر قاسمی نے تلاوتِ قرآن مجید کی۔ تقریباً دو ہفتے بعد قائداعظم ؒنے پہلی بار ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم سے خطاب کیا۔ لاہور ریڈیو نے ایک خصوصی پروگرام بھی شروع کیا جس میں بچھڑے ہوئے لوگوں کے پیغامات نشر کیے جاتے تھے تاکہ وہ اپنے پیاروں تک رسائی حاصل کر سکیں۔

ریڈیو ذرائع ابلاغ کا ایک مضبوط وسیلہ ہے۔ اسلام آباد کا ریڈیو اسٹیشن 7مئی 1977ء کو قائم کیا گیا جو اُردو، انگریزی ، بلتی اور شینا زبانوں میں چلتا ہے ۔ ریڈیو پاکستان نے ہر مشکل خواہ 1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کی اپنے ہم وطنوں کا حوصلہ بلند رکھا۔ ان جنگوں میں ریڈیو نے سرحد پہ فوجی جوانوں اور ملک کے چپے چپے میں لوگوں کا جذبہ گرمائے رکھا۔ سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت ریڈیو کی ان تھک کاوشیں بھلائی نہیں جاسکتیں۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع سات منزلہ ریڈیو پاکستان کی عمارت کوپہلے تو کہا گیا کہ میڈیا یونیورسٹی کو بعد ازاں یہ عقدہ کھلا کہ ایک نجی ٹی وی کے لیے لیز پہ دینے کی تجویز پہ سب لوگ بھڑک اُٹھے۔ اس سات منزلہ عمارت میں شعبہ انجینئرنگ، پروگرامنگ، ایڈمن، پی آر، فنانس اور ہیڈ کوارٹر ایڈمن کے دفاتر موجود ہیں۔ اسلام آباد کے ریڈیو ملازمین نے کہا کہ اول تو یہ دفتر یہاں سے ہلے گا نہیں لیکن ویسے بھی اتنے بڑے دفتر کو شفٹ کرنے میں بہت وقت درکار ہوگا۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ریڈیو ملازمین سے ایک ملاقات کے دوران جواب میں کہا’’یہاں سے شفٹ ہونے میں کوئی دیر نہیں لگتی ، دوسرے مشینری اُٹھا کر لے جانے میں کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں۔مزید کہا کہ جب ریڈیو پاکستان قائم ہوا اس وقت بڑے بڑے ٹرانسمیٹر ہوتے تھے اب چونکہ ٹیکنالوجی کافی ترقی کر چکی ہے لہٰذا یہ ایک کمرے میں بھی چل سکتا ہے ۔ایف ایم تو دس مرلے میں لگ جاتا ہے ۔اسلام آباد ریڈیو اسٹیشن کی جگہ تو 275کنال ہے یہ زمین ڈیڈ پراپرٹی کے زمرے میں جاتی ہے ‘‘۔ واہ صاحب!کسی بھی ملک و قوم کے اثاثہ کی اہمیت کا اندازہ اس کی رفاہی امداد سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے معاشرے اور ثقافت کے فروغ کے لیے کی ۔ آپ جو چوہدری کہلاتے ہیں میراث اور اثاثے کا مطلب خوب سمجھتے ہوں گے ۔ مسٹر پرائم منسٹر کو درست مشورہ دیجیے پہلے ہی ہم Royal Palmکے نام پہ پاکستان ریلوے کا قیمتی اثاثہ کھو چکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کراچی کو آگ کے گھناؤنے کھیل میں وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔ پی۔ آئی ۔ اے کو تباہ و برباد کر دیا گیا ۔کیوں ہماری تاریخ اور قومی ورثے کو مٹانے کے لیے ایک ایک کرکے دکانداری کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔

ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی عمارت میں قدیم وجدید ریکارڈنگز کو جس طرح محفوظ کرکے نئی تکنیک میں ڈھالا جارہا ہے اس سے ریڈیو ملازمین کی محبت اور لگن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یقینا یہ کام تنخواہ کے علاوہ ایک جذبے کے تحت کیے جارہے ہیں۔ تھوڑا ذکر بی بی سی لندن براڈ کاسٹنگ ہاؤس کا بھی ہو جائے۔ سینٹرل لندن میں پورٹ لینڈ پیلس میں بی بی سی کی یہ پہلی عمارت 1932ء میں آرٹ ڈیکو سٹائل میں بنائی گئی۔ بعد ازاں اس میں مزید وسعت اور ترمیم کی گئی۔ بنیادی عمارت کومزید سجایا اور چمکایا گیا۔ بی بی سی ریڈیو ، بی بی سی ریڈیو 4اور بی بی سی ورلڈ سروسز کودوبارہ بنائے گئے سٹوڈیوز میں منتقل کیا گیا ۔ کیا انگریز نہیں جانتے تھے کہ وہ بھی ایک کمرے میں یہ نشریات چلا سکتے ہیں لیکن وہ لوگ اپنی تاریخ کو محفوظ کرنا جانتے ہیں۔دلی اور آل انڈیا ریڈیو کی تاریخی گول لال عمارت جو فرنگی جاتے جاتے انہیں دے گئے آج بھی سینت کے رکھی ہے۔ ہم تو جدیدیت کے نام پہ اپنی ہر پرانی تہذیب کو مٹانا فخرسمجھتے ہیں۔ ہم کیسے ٹی وی کو بہتر سمجھ کے ریڈیو کو فضول یا مردہ قرار دے سکتے ہیں۔ یاد ہے جب ٹرانسسٹر ریڈیو نکلے تو وہ رابطے کا آسان اورسستا ترین ذریعہ بن گئے جسے چلتے پھرتے ، گھر کے اندر، گھر کے باہر باآسانی لے جایا جاسکتا تھا۔ اس کے سامنے جم کے بیٹھنے اور جوڑوں کے درد لگوانے کی ضرورت نہ تھی۔

خدارا! ریڈیو پاکستان کی ترقی کے لیے کام کیجیے ، اس کا ساتھ دیجیے،اس کی اہمیت کو کم مت کیجیے ۔ اس کے لیے ریڈیو میلے اور انواع و اقسام کی نشریات کو جاری و ساری کرنے کے لیے اس اثاثے کی رونق بڑھائیے۔ کُجااس عمارت کو نزول پہ دینے کی باتیں کی جائیں۔ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ابھی حال ہی میں حکومت ِ جاپان نے 15ارب روپے کا خرچہ کرکے سٹوڈیوز اور ٹرانسمیٹرز دونوں کو اپ گریڈ کیا ہے۔ ریڈیو پاکستان وہ قومی ورثہ ہے جسے نسل در نسل منتقل ہونا چاہیے۔ اس پُرشکوہ عمارت کو دیکھ کر اگر کسی نجی ٹی وی والے کی رال ٹپک رہی ہے تو خدارا اسے پونچھ لیں اور اپنے لالچی جذبات کو سنبھال کر رکھیں۔ ہم نے تو تبدیلی کے لیے نہ صرف ووٹ دیا بلکہ گھر گھر لوگوں کی منتیں بھی کیں ، اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ لگایا بغیر کسی لالچ کے۔ لیکن اگر یہی ہونا تھا جو پچھلی حکومتیں کرتی رہیں تو سب ویسے ہی چلتا رہتا ۔

اگرحکومت کوئی قہر و تسلط چاہتی ہوتو اس کے اثرات خوفناک ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مملکت سیاسی قوانین سے محروم ہوجائے تو پھر اس کا وقار و اقتدار دونوں قائم نہیں رہتے ۔ بی بی سی کے ایک پروگرام سے پتہ چلا کہ اس ریڈیو اسٹیشن میں 20سٹوڈیوز ہیں جہاں مختلف زبانوں کے پروگرام آواز کی لہروں پہ نشر کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ان پہ کروڑوں روپے کی لاگت آتی ہے ، تیسرے جہاں یہ اسے شفٹ کرنا چاہتے ہیں وہاں تو 20کمرے بھی نہیں:اس طرح کے سٹوڈیوز ریڈیو اکیڈمی میں کیسے چل سکتے ہیں اور پھر ریڈیو اکیڈمی کا کیا ہوگا؟ وہ کہاں جائے گی ؟اس پہ کیا مزید نئے سرے سے پیسہ درکار نہیں ہوگا؟ذرا سوچیے! سیاچن کے برف پوش پہاڑوں پہ اگر ہمارے فوجی جوانو ں تک باہر کی دنیا کا رابطہ ہے تو وہ ریڈیو ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ ، افریقہ ، یورپ اور دیگر ممالک میں سب سے فعال ذریعہ ریڈیو ہے ۔ اسلام آباد ریڈیو اسٹیشن ہیڈ کوارٹر ہے جہاں خبروں ، حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں ، تفریحی اور دینی معلومات کے پروگرام کے مختلف شعبہ جات 24گھنٹے کام کرتے ہیں ۔ اسے تبدیل کرنا نامنظور ہے ۔ خدایا! میری التجا ہے تجھ سے کہ یہ دل کا بوجھ نہیں جو الفاظ کی صورت اختیار کر رہا ہے یہ وہ جذبہ ہے جو قومی میراث سے جڑا ہے ۔ اسے بچالے مالک کہ لوگ تو لالچ کے پُتلے بن گئے ہیں۔
مریم ارشد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).