بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں یا نہ لگوائیں


ایک دن میں‌ یونہی فیس بک فیڈ چیک کررہی تھی تو میں‌ نے سفید فام خواتین کا ایک گروپ فوٹو دیکھا جس میں‌ انہوں‌ نے نیلی ٹی شرٹیں پہنی ہوئی تھیں‌ جن پر یہ فقرے لکھے ہوئے تھے کہ ویکسین لگانے سے آٹو امیون بیماریاں‌ ہوجاتی ہیں، ویکسین لگانے سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں، اے ڈی ایچ ڈی یعنی اٹینشن ڈیفیسٹ کی بیماری ہوتی ہے، بچوں‌ کو سیکھنے میں‌ مشکل کا سامنا کرنا ہوتا ہے، بچوں‌ کی اچانک موت واقع ہوجاتی ہے، بچے پیدا ہونے بند ہوجاتے ہیں‌، ویکسینوں‌ سے موت واقع ہوتی ہے اور اسی طرح‌ کی مزید باتیں۔ یوں بظاہر دیکھنے میں‌ یہ نارمل پڑھی لکھی خواتین دکھائی دے رہی تھیں جن کے بچپن میں‌ سب بچوں‌ کو ہی ویکسینیں لگی تھیں تبھی وہ زندہ اور صحت مند ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آئی اور شرارت سوجھی اور میں‌ نے اس تصویر کو اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا اور ساتھ میں‌ لکھا کہ ویکسین لگانے سے حماقت سے بچاؤ نہیں‌ ہوتا۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ میری ایک دوست خاتون نے اس کے نیچے یہ پریشانی ظاہر کی کہ ویکسینوں کی فیلڈ میں‌ ابھی مزید ریسرچ کی ضرورت ہے اور اس نے اپنے بچے کو ویکسین نہیں‌ لگوائی۔ یہ بات ان خاتون سے سن کر میں‌ اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہوگئی کہ اس خوف اور بدحواسی کی کیا وجوہات ہیں؟ اسی لیے میں نے یہ مضمون “ٹو ویکسینیٹ اور ناٹ ٹو ویکسینیٹ!” یعنی ویکسین لگوائیں‌ یا نہ لگوائیں لکھا۔ اس کا انگلش ورژن کیون ایم ڈی پر ایک دو ہفتے میں‌ چھپے گا۔ یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔ امید ہے کہ اس مضمون سے قارئین کو اس موضوع پر سوچنے کا موقع ملے گا۔

مجھے یاد ہے جب ہم لوگ سکھر میں‌ رہتے تھے۔ میری عمر اس وقت چھ سے کم ہی ہوگی کیونکہ ابو ابھی زندہ تھے۔ ایک آدمی سرخ ٹینک میں‌ ویکسین لے کر گھر گھر جارہا تھا۔ ہم لوگ ڈر کے مارے چیخیں مار کر ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے۔ میرے ابو نے مجھے پکڑ لیا اور اس آدمی نے میرے بائیں‌ بازو پر ٹیکا لگایا۔ اب دو نشان ہیں۔ ایک ٹی بی ویکسین کا اور دوسرا اسمال پاکس کا۔ لاتعداد سائنسدانوں‌ کی انتھک محنت اور ویکسین کی مہربانی سے اسمال پاکس اب دنیا سے ختم ہوچکی ہے۔ میں‌ اپنے والدین کی شکر گذار ہوں کہ انہوں‌ نے ہمیں‌ تمام ویکسینیں‌ لگوائیں۔ اسمال پاکس یا چیچک ایک خطرناک بیماری ہے جو وائرس سے پھیلتی ہے۔ اسمال پاکس کے 100 مریضوں میں‌ سے 30 مر جاتے ہیں۔ میرے ایک اور ماموں‌ بھی ہوتے تھے جن کا نام نجیب صدیقی تھا۔ نجیب ماموں‌ اور احمد ماموں دونوں‌ کو لڑکپن میں‌ چیچک ہوگئی تھی۔ نجیب ماموں‌ کی اس سے وفات ہوئی اور احمد ماموں‌ ابھی زندہ ہیں لیکن ان کے سارے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ ان کی عمر کوئی 70 کے قریب ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں‌ سکھر میں‌ چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ دو میں‌ سے ایک موت کا مطلب ہوا کہ انفکشن ہونے کی صورت میں‌ زندگی اور موت کا چانس ففٹی ففٹی تھا۔

کیا اسمال پاکس کی ویکسین کے کوئی سائڈ افیکٹ نہیں‌ ہیں؟ ہاں بالکل ہیں۔ اسمال پاکس کی ویکسین اتنی محفوظ نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی نئی ویکسینیں‌ ہیں۔ چیچک کی ویکسین سے بخار، جسم میں‌ درد، تھکن، متلی، خارش اور سر درد کی پریشانیاں‌ لاحق ہوسکتی ہیں۔ اسمال پاکس کی ویکسین لگانے سے موت کا خطرہ ایک ملین لوگوں میں‌ سے ایک سے بھی کم ہے۔ انفکشن پھیلنے سے ہونے والی اموات کا خطرہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ مضمون پڑھنے والے زیادہ تر افراد کا میڈیکل بیک گراؤنڈ نہیں ہے اس لیے یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ساری بیماریاں جن کے ان خواتین نے نام لیے ہیں، وہ سب ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اور ہر بیماری کی الگ وجوہات ہیں۔ ان کو کسی بھی طرح‌ کسی ایک وائرس، ایک بیکٹیریا یا ویکسینوں‌ سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آٹو امیون بیماریاں جینیاتی ہیں یعنی کہ یہ افراد ان جینز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ دورے مختلف طرح‌ کے ہوتے ہیں اور ان کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ چھوٹے بچوں‌ کو شدید بخار میں‌ دورے پڑسکتے ہیں، کچھ کو شوگر نہایت کم ہوجانے سے دورہ پڑ سکتا ہے اور کچھ کو اسٹروک کے نتیجے میں‌ ہونے والے دماغی صدمے سے. کسی بچے کو کس وجہ سے اسکول میں‌ سیکھنے میں‌ مشکل ہورہی ہے، اس کی بھی بہت ساری مختلف نیورولوجکل اور سائکائٹرک وجوہات ہوسکتی ہیں جن کو کسی ایک ویکسین سے جوڑنا مشکل ہے۔ ایس آئی ڈی ایس، سڈز یعنی کہ سڈن انفنٹ ڈیتھ سنڈروم ایک سال سے کم عمر بچوں میں‌ نیند کے دوران وفات کا ایک سبب ہے۔

زوبی اور صائمہ کے بیچ میں‌ ہماری ایک اور بہن تھی جو کوئی تین مہینے کی عمر میں‌ سوتے میں‌ فوت ہوگئی تھی۔ اس کو تو ابھی کوئی ٹیکے بھی نہیں‌ لگے تھے۔ سڈز سے میں‌ اتنی خوفزدہ تھی کہ جب میرے بچے سو رہے ہوتے تھے اور بہت آہستہ سانس لے رہے ہوتے تھے تو میں‌ ان کو ہلا کر چیک کرتی تھی کہ وہ زندہ ہیں۔ ابھی تک سڈز کا سبب معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ بچوں کے دماغ میں‌ سانس لینے والے خلیوں اور جگانے والے خلیوں‌ میں‌ خرابی کے باعث ہو جاتی ہے۔ اس طرح بغیر معلومات کے ویکسین کو سڈز سے جوڑ دینے اور اس بات کو مشہور کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ اس طرح لوگ بلاوجہ خوفزدہ ہوں گے اور اپنے بچوں کی صحت سے متعلق درست فیصلے نہیں‌ کرپائیں‌ گے۔

میرے اسکول کی ایک دوست نے میسج بھیجا کہ اس کے بیس سالہ بھتیجے کو ٹیٹینس ہوگئی ہے۔ وہ آئی سی یو میں‌ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد اس کی وفات ہوگئی۔ پاکستان اور انڈیا میں لوگوں‌ کے ڈھیر سارے بچے ہیں اور لوگ دھڑا دھڑ سیدھے ہاتھ الٹے ہاتھ مر رہے ہیں۔ خودکشی، بم دھماکے، ذیابیطس، دل کے دورے، اسٹروک، انفکشن سے پھیلنے والی بیماریاں! ایسا لگتا ہے کہ جیسے جنوب ایشیائی صرف مرنا جانتے ہیں جینا نہیں جانتے۔ ہمارے آبائی شہر سکھر میں ہر سال دریائے سندھ میں لوگ ڈوب کر مرتے ہیں۔ زیادہ تر اسکول اور کالج کے جوان لڑکے۔ سادھو بیلا میں‌ ہمارے سامنے کالج کا کلاس فیلو ڈوب کر مرگیا تھا۔ پکنک خراب ہوگئی تھی، روتے دھوتے واپس آئے۔ کیا بچوں‌ کو اسکول میں‌ سوئمنگ سکھا دینا اتنا مشکل کام ہے کہ وہ سو سال سے نہیں‌ ہو پا رہا ہے؟
1947 سے آج امریکہ میں‌ ٹیٹینس ویکسین کی وجہ سے اس بیماری میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ٹیٹینس کے مریضوں‌ میں‌ موت کی شرح‌ 13 فیصد ہے یعنی اگر سو افراد کو ٹیٹینس ہوجائے تو ان میں سے تیرہ افراد مر جاتے ہیں۔ ٹیٹینس کی ویکیسن سے یہ جانیں‌ بچ سکتی ہیں۔ اور اس ویکسین کے سائڈ افیکٹ بالکل معمولی اور قابل برداشت ہیں۔ امریکہ میں‌ آج سال میں‌ کوئی تیس ٹیٹینس کے کیس ہوتے ہیں‌ اور وہ سارے ان لوگوں‌ میں‌ جنہوں‌ نے اس کا ٹیکا نہ لگایا ہو۔
انسانوں نے یہ دلچسپ مشاہدہ کیا کہ جب کسی کو خسرہ کی بیماری ہوتی ہے تو وہ ان کو دوبارہ نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مدافعتی نظام نے اس وائرس کو سیکھ کر اس کے خلاف خون کے سفید خلیے تیار کرلیے۔ ویکسینیں‌ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بیماری پھیلانے والے وائرس کی کمزور اور بیماری پیدا نہ کرسکنے والی اقسام سے انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو متحرک کیا جائے تاکہ وہ ان بیماریوں‌ کے خلاف لڑائی کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہوں۔ ہم میں‌ سے جن بھی خوش نصیب انسانوں‌ کو یہ ویکسینیں لگی ہوئی ہیں، ہمیں‌ یہ معلوم بھی نہیں‌ ہوتا کہ چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، باہر گھومتے کتنی بار یہ وائرس ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے اور ہمارے مدافعتی نظام نے ہمیں‌ پتا چلنے سے پہلے ہی ان کا قصہ تمام کیا۔ ہم جو بھی دوائیں استعمال کریں‌ یا ویکسینیں، ہمیشہ ان کے نقصان اور فائدے تولنے ہی ہوتے ہیں اور جب فائدہ بہت زیادہ ہو اور نقصان معمولی تو کوئی بھی یہ فیصلہ بآسانی کرسکتا ہے۔ ویکسینیوں سے خطرناک بیماریوں‌ سے بچاؤ ممکن ہے جن میں‌ کالی کھانسی، گردن توڑ بخار، خناق، پولیو اور چیچک شامل ہیں۔ ان بیماریوں‌ سے بہت سارے لوگ ہر سال مرجاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی نئی نسل اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ کس طرح‌ یہ ویکسینیں‌ ہزاروں‌ زندگیاں بچانے کا سبب ہیں۔ ان کو ان کے والدین نے ویکسینیں‌ لگوائی تھیں تبھی یہ صحت مند اور زندہ ہیں۔ انہوں‌ نے خود کبھی کسی کو ان خطرناک بیماریوں کے ساتھ تڑپتے، سسکتے اور مرتے نہیں دیکھا ہے۔ ریپبلیکن پارٹی اور ایوانجیلیکلز ابارشن اور برتھ کنٹرول کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ اس بات کو دو تین نسلیں گذر چکی ہیں جب مائیں گیارہواں بچہ پیدا کرتے ہوئے مرگئیں، کوئی نواں بچہ چرچ کے باہر چھوڑ گئیں کیونکہ جو پہلے سے تھے وہ ہی نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ چونکہ میں‌ نے اپنی ابتدائی زندگی پاکستان میں‌ بسر کی اس لیے میں‌ نے ان بیماریوں کے شکار افراد کو ذاتی طور پر دیکھا۔ دو منٹ پہلے میری چھوٹی بہن کا فون آیا۔ وہ ایک امریکی نرس ہے۔ میں‌ نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کو یاد ہے کہ بچپن میں‌ اس کو خناق ہوگئی تھی جب وہ ہچکیوں‌ کی طرح‌ سانس لے رہی تھی؟ اس نے کہا کہ ہاں‌ مجھے یاد ہے۔ وہ میری امی کے ساتھ ہسپتال میں‌ داخل تھی اور ہم باقی بچے ماسی کے ساتھ گھر پر تھے۔ ابو کا انتقال ہوچکا تھا۔ میں‌ جب ہسپتال گئی تو اس کی حالت کچھ بہتر ہو چکی تھی، ہماری امی نے ہمیں‌ ایک روپے کے سکے دیے اور ہم دونوں باہر گئے اور ٹھیلے سے کچھ کھانے کے لیے خریدا تھا۔ منجھلی کو گردن توڑ بخار ہوگیا تھا۔ ساری رات زرا سی ٹانگیں‌ ہل جاتی تھیں تو وہ درد کی شدت سے چلانے لگتی تھی۔ ہمارے سامنے والے گھر میں‌ ڈاکٹر ممتاز رہتے تھے، انہوں‌ نے آکر اس کو ایک انجکشن لگایا تھا جس سے اس کی طبعیت بہتر ہوگئی۔ اس وقت ہم بچے تھے، شائد وہ سیفٹریاگزون کا انجکشن تھا۔ اب وہ سائکائٹرسٹ ہے لیکن نقطہ یہ ہے کہ میری یہ دونوں‌ بہنیں‌ مر بھی سکتی تھیں۔

میڈیکل کالج میں‌ بھی یہی دیکھا کہ لوگ مریضوں‌ کو چارپائیوں‌ پر تب ٹیچنگ ہسپتال لاتے تھے جب وہ موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے تھے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایک مضمون میں‌ یہ تکلیف دہ موضوع ڈسکس کیا تھا، میرے سسر جگر کے کینسر سے چل بسے تھے جو طویل عرصے کی ہیپاٹائٹس کی بیماری کی وجہ سے ہو گیا تھا۔ اگر سب لوگ ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگوائیں تو ہزاروں‌، لاکھوں‌ جانیں‌ بچ سکتی ہیں۔ ان نیلی ٹی شرٹ والی خواتین سے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ آپ لوگ خود کو مزید تعلیم یافتہ کریں اور بغیر ثبوت کے بلاوجہ الٹی سیدھی کہانیاں‌ بنا کر عام عوام کو خوفزدہ مت کریں‌۔ اس سے ان تمام سادہ لوگوں‌ اور ان کے معصوم بچوں‌ کی بیماریوں‌ اور اموات کی ذمہ داری آپ پر لاگو ہوگی جو آپ کی بات پر اعتبار کرلیں‌ گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).