پشاور یونیورسٹی کے طلبہ اور موٹو گینگ


آج نئے پاکستان کی جنم بھومی پشاور میں یونیورسٹی کے طلبہ نے ایسی کم عقلی دکھائی کہ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ بہرحال پولیس نے ان کے دماغوں کو ہوا لگوائی تاکہ ان طلبہ کو پتہ چلے کہ نئے پاکستان میں محبت کیسے ملتی ہے۔ دماغوں کو ہوا لگوانے کے لیے پولیس کو طلبہ کے سروں پر ڈنڈے مارنے پڑے تاکہ پھٹے ہوئے سر گزر کر ہوا اندر دماغ تک پہنچے تو طلبہ ٹھیک سے سوچیں۔

طلبہ کے دس نام نہاد مطالبات تھے جنہیں لے کر وہ وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے پہنچے تو یونیورسٹی انتظامیہ کے حکم پر پولیس نے ان کا دماغ ٹھیک کرنا شروع کر دیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طلبہ کا موقف سن کر معاملات حل کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن دھرنے کی آڑ میں سیاسی اہداف حاصل کرنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، عدم تشدد، برداشت اور جمہوری رویوں پر یقین رکھتے ہیں۔

بات تو واقعی درست ہے۔ انتظامیہ عدم تشدد کی داعی ہے اس لیے سر پر ڈنڈے مارے گئے ہیں۔ تشدد کی داعی ہوتی تو پھر وہاں خون کی ندیاں بہا دیتی۔ پھر دھرنے کے متعلق بھی یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ٹھیک ہی لگتا ہے۔ سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے دھرنا دینا واقعی بری بات ہے اور ہمیں یقین ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے اس موقف سے اتفاق کرے گی۔

طلبہ کے مطالبات کی جو لسٹ ہمیں موصول ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ فیسیں آدھی کی جائیں، فیس قسطوں پر لی جائے، یونیورسٹی میں بدعنوانی کی تحقیقات کی جائیں، تمام طلبہ و طالبات کو ہاسٹل فراہم کیا جائے، ہاسٹل میں سرکاری میس شروع کیا جائے، سیکیورٹی کے نام پر طلبا و طالبات کا استحصال بند کیا جائے، طالبات کو تحفظ فراہم کیا جائے اور جنسی ہراسانی کی تحقیقات کی جائیں اور ملوث افراد کو برطرف کیا جائے۔ الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ کا انجینئرنگ کونسل سے الحاق کیا جائے، طلبا و طالبات کو سکالر شپ اور لیپ ٹاپ سے محروم نہ کیا جائے، اور یونیورسٹی کی ٹرانسپورٹ کو عملاً شروع کیا جائے۔ یہ مطالبات کرنے والوں میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، اسلامی جمعیت طلبہ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن والے شامل تھے۔

ظاہر ہے کہ سارے مطالبات ناقابل قبول تھے۔ فیس آدھی کر دی تو اتنے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ پیدا ہو جائیں گے جن کو نوکری دینا ناممکن ہو گا۔ یونیورسٹی میں بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ مثل مشہور ہے کہ بزرگوں کی خطا پر گرفت کرنا غلط ہوتا ہے۔ طالبات کو تحفظ دینے اور جنسی ہراسانی کی تحقیقات سے یونیورسٹی بدنام ہو سکتی ہے۔ طلبہ کو اپنی عزت کا پاس نہیں تو یونیورسٹی کی عزت کا ہی خیال کر لیں۔ اگر انجینئرنگ کونسل اتنی جوہر ناشناس ہے کہ یونیورسٹی کی ڈگری نہیں مانتی تو اس کے منہ لگنے کی کسی شریف آدمی کو کیا ضرورت ہے، یونیورسٹی نے طلبہ کو علم دیا ہے، وہ ڈگری کیوں مانگ رہے ہیں؟ اور ٹرانسپورٹ کس لیے مانگ رہے ہیں؟ اگر ان میں علم حاصل کرنے کی چاہ ہے تو پیدل چل کر آ جائیں۔ اس سے ان کی صحت بھی بہتر ہو گی۔ یعنی سارے مطالبات غلط ہیں۔

پشاور پولیس کے طلبہ کو بزرگانہ انداز میں سمجھانے بجھانے کے بعد وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسف زئی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کا احتجاج فیس میں اضافے کا معاملہ نہیں بلکہ ہاسٹلوں سے غیر متعلقہ افراد کو نکالنے کا رد عمل ہے لیکن فیسوں کے معاملے کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا، کچھ روز قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے ماحول خراب کرنے والے بیرونی عناصر کے خلاف آپریشن کیا تھا اور 400 کمرے خالی کرائے تھے۔ تاہم انہوں نے نہایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معاملے پرافسوس ہے فیسوں میں اگر اضافہ ہوا ہے تو یہ یونیورسٹی کا داخلی معاملہ ہے تاہم حکومت طلباء سے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔

ظاہر ہے کہ طلبہ کا موقف غلط ہو گا اور انصاف پسند وزیر درست فرما رہے ہوں گے۔ ہم تو بس حیران ہو رہے ہیں کہ طلبہ ایک طرف تو ہاسٹل میں کمرے حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری جانب بقول وزیر صاحب کے وہ ہاسٹل کے کمروں پر قابض بیرونی عناصر سے کمرے خالی کروانے پر احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ طلبہ ہوتے ہی ناسمجھ ہیں۔ اس جگہ رک کر ہمیں تحریک انصاف کی حکومت کی انصاف پسندی کی تعریف کرنی پڑے گی۔ اس نے سب طلبہ سے یکساں سلوک کیا ہے اور سب کو بلا امتیاز ایک ہی جتنا مارا ہے، بشمول انصاف سٹوڈنٹس فیڈیشن کے۔

غلطی بہرحال طلبہ کی ہے۔ ان میں موٹو گینگ جتنی عقل بھی نہیں ہے ورنہ جانتے کہ مطالبہ کیسے منواتے ہیں۔ ایک مشفق شخصیت نے موٹو کو ہاتھ کا اشارہ ہی مارا تھا تو وہ صوفے کے پیچھے بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگر طلبہ بھی ڈنڈے مارے جانے کے بعد اپنی اپنی کرسیوں کے پیچھے جا کر بیٹھ جاتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے تو کون ظالم ان سے محبت سے پیش نہ آتا؟ ان کے تمام مطالبات بھی بن کہے ویسے ہی مان لیے جاتے جیسے موٹو کے مانے گئے تھے۔ بلکہ ہمیں یقین ہے کہ وہ تو صرف بس کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کو موٹو کی طرح گھر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر مل جاتا۔

اگر آپ یہ بھی فرض کر لیں کہ طلبہ کے مطالبات ٹھیک تھے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کا طریقہ غلط تھا، اسی لیے وہ اس بری طرح زخمی ہو گئے ہیں۔ بہرحال انہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ صوبائی حکومت کے ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اپنا علاج مفت میں کروا سکتے ہیں اور اس کے بعد مطالبات منوانے کا صحیح طریقہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس وقت پشاور یونیورسٹی کے طلبہ بیٹھے یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم سے بہتر تو موٹو گینگ ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar