کیا یہی وہ آزادی ہے جس کا دفاع کرنے کی کوشش ہم کر رہے ہیں؟


بین الا قوامی کانفرنسوں میں انسانی عظمت، وقار، آزادی اور قومی اور انفرادی حقوق کے بارے میں ایسی ایسی لفاظی اور بے معنی تقریروں کو سننے کا موقع ملتا ہے جن کا حقیقت سے کم ہی کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ مقررین یہ لفظ اور جملے کچھ اتنے یقین اور تسلسل سے بولتے ہیں کہ انہیں خود بھی واقعی سچ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ان معاملات میں ان کے ملک کا موقف بھی بالکل سچا ہے۔ تا ہم کبھی کبھار ایسے معرکوں میں تازہ ہوا کا جھونکا بھی آتا ہے۔

ایسا ہی ایک موقع سیٹو کے ایک اجلاس تھا جس سے آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ کو خطاب کرنا تھا۔ وزیروں کو حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق تقریر کرنا تھی۔ جب کونسل کے اجلاس سے آسٹریلیا۔ فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ خطاب کر چکے تو نیوزی لینڈ کے اسی سالہ وزیراعظم والٹر نیش کی باری آئی۔ کہنے لگے سیٹو کی کونسل کے اجلاس میں وہ پہلی بار حاضر ہوئے ہیں اور انہوں نے وزرائے خارجہ کی تقریریں بڑے غور سے سنی ہیں۔ جنہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاہدہ سیٹو کا مدعا دراصل اپنے ایشیائی ساتھیوں فلپائیں، تھائی لینڈ اور پاکستان کی آزادی کا تحفظ ہے۔

بلاشبہ یہ اعلیٰ مقاصد ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہم کس کی آزادی کا تحفظ کر رہے ہیں؟ ایک ملک میں کچھ برسوں سے ایک فیلڈ مارشل حکمران ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس نے تمام شہری اور انسانی حقوق معطل کر رکھے ہیں۔ ایک دوسرے ملک میں حال ہی فوج نے سول حکومت الٹ دی ہے تیسرے ملک میں جنرل نے حکومت پر قبضہ کر کے آئین معطل کر دیا ہے، مارشل لا لگا کر تمام شہری حقوق سلب کر لئے ہیں۔ تو جناب والا، کیا یہی وہ آزادی ہے جس کا دفاع کرنے کی کوشش ہم کر رہے ہیں؟ والٹر نیش سیٹو میں شامل تینوں ایشیائی ممالک فلپائن، تھائی لینڈ اور پاکستان کی فوجی حکومتوں کا حوالہ دے رہے تھے۔

سیٹو کی کونسل کے اجلاس بڑے قاعدے قرینے سے ہوتے تھے اور والٹر نیش نے جس قسم کا انداز اختیار کیا اس سے اجلاس میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ اب پاکستان کی باری تھی، وزیر خارجہ قادر تھے انہوں نے تقریر سے پہلے وقت مانگا کہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر سکیں۔ اجازت دے دی گئی اب پاکستان والوں میں صلاح مشورہ ہونے لگا کہ بزرگ وزیراعظم کے تبصر ہ سے کیسے نمٹا جائے۔

دفتر خارجہ والوں نے کہا کہ نیش کے بے موقع ریمارکس پر زوردار احتجاج کیا جائے۔ آپس میں دلچسپ مباحثہ شروع ہو گیا، منظور قادر نے سب کی بات بڑے دھیان اور گہری توجہ سے سنی اور آخر میں کہا کہ میں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کی بات پر قطعی کوئی احتجاج نہیں کروں گا کیونکہ انہوں نے کچھ کہا سچ کہا۔ اور جب منظو ر قادر نے کونسل سے خطاب کیا تو انہوں نے والٹر نیش کی تین ممالک کے بارے میں باتوں کا کوئی حوالہ ہی نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).