پروپیگنڈے سے انسان کو گدھا بنایا جاتا ہے


چھوٹی عمر میں ایک بار بڑے بھائی سے پوچھا کہ پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے خاکسار کی کم سنی اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سادہ سا جواب دیا جو آج تک یاد ہے۔ بولے اگر 30 دن تک گھر، محلے اور شہر کا ہر شخص تمہیں گدھا کہہ کر بلاتا رہے اور گدھے کی طرح ٹریٹ کرے تو تیس دن بعد تم خود بھی اپنے آپ کو گدھا سمجھنے لگو گے حالانکہ تم گدھے نہیں ہو (آخر میں طنزیہ بولے حالانکہ ہو تم گدھے ہی۔ فارسی میں کیا خوب محاورہ ہے سگ باش برادر خورد نا باش۔ یعنی چھوٹے بھائی سے کتا اچھا)۔ تھوڑے سیانے ہوئے تو سمجھ آئی کہ برادر عزیز نے سادہ الفاظ میں گوئبلز کا فلسفہ سمجھایا تھا۔

جوزف گوئبلز بدنام زمانہ ہٹلر کا وزیر اطلاعات تھا جسے ماڈرن پروپیگنڈا کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ گوئبلز کا فلسفہ سادہ سا تھا۔ جھوٹ عام فہم اور زود ہضم طریقے سے اتنی بار دہرایا جائے کہ خود جھوٹ بولنے والے کو بھی اس پر یقین کامل ہو جائے۔ گوئبلز نے اگرچہ کوئی نئی تھیوری پیش نہیں کی مگر اتنا ضرور کیا کہ صدیوں پرانے ہتھکنڈوں کو منظم سائنسی انداز میں پیش کیا۔ پروپیگنڈا ایک مخصوص عرصے میں خاص مقاصد کے حصول کا کامیاب ذریعہ ہے۔ کسی پروپیگنڈے کے پیچھے بدنیتی، سچ اور جھوٹ کا تناسب کیا ہے؟ اس کا عموماً تب پتہ چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہتا اور اس وقت تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے نئے طریقے مارکیٹ میں لانچکیے جا چکے ہوتے ہیں۔

ایسے درجنوں پروپیگنڈے پیش کیے جا سکتے ہیں جو ہم نے اپنی مختصر زندگی میں بار بار سنے یا پڑھے، ایمان لائے اور پھر ہونقوں کی طرح انہیں باطل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ لیکن طوالت کے خوف سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس تحریر کے مقصد کی جانب لے جانا چاہوں گا ( آپ چاہیں تو کمنٹ میں ان دلچسپ پروپیگنڈاز کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے آپ متاثر ہوئے اور پھر جان گئے کہ یہ پروپیگنڈا تھا )۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں ہوش سنبھالنے والی ہر نئی نسل نے جس طرح اسلام کو خطرے میں اور پاکستان کو نازک دور سے گزرتے پایا وہاں ایک اور درفطنی بھی گوئبل کے فلسفے کی طرح انتہائی منظم انداز میں ناپختہ ذہنوں میں انڈیلی جاتی رہی۔ وہ یہ کہ پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ لوٹنے والے سیاستدان ہیں جو سراسر شر اور سرتاپا کرپشن ہیں، بیوروکریسی ان کی معاون ہے اور بس اللہ کا معجزہ ہے کہ پاکستان نامی یہ دیگ دونوں ہاتھوں سے لوٹے جانے کے باوجود ختم نہیں ہو رہی۔ اور اگر آج انہیں نہیں روکا گیا تو ہم لٹ گئے برباد ہو گئے۔ آج نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ و علی ہذالقیاس۔

اب یہاں میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ پاکستان کی کل تاریخ کا نصف تو سیدھا سیدھا مارشل لاء کے ادوار پہ مشتمل ہے۔ باقی نصف میں بھی سیاست دانوں کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا شریک اقتدار کیا گیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر پھر بھی غیر جمہوری قوتیں قابض رہیں تو پھر سیاست دان تنہا سب خرابے کے ذمہ دار کیسے ہو گئے؟ نہیں میں آج ایسا کوئی سوال نہیں اٹھاوں گا۔ میں آپ کی توجہ ایک اور نکتے پہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔

اور وہ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ آج آپ اپنا طرز زندگی دیکھیں، اپنے بچوں کو حاصل سہولیات و تعیشات کو دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ اپنے والد اور داد کی زندگی سے کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ خاکسار کے والد پولیس ایسے دبنگ محکمہ میں سب انسپکٹر رہے۔ ایک لمبا عرصہ تھانوں کے ایس ایچ او بھی رہے۔ لیکن ہم ہمیشہ شہر میں کرائے کے مکان میں رہے۔ گھر میں موٹر سائیکل تک نا تھی۔ سب بہن بھائی ٹاٹ والے سرکاری اسکولوں میں پیدل آتے جاتے رہے۔ میٹرک سائنس اس عالم میں کی کہ ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر نہیں تھا۔ پبلک ٹرانسپورٹ پہ لٹک کے کالج جاتے رہے۔ کالج کے دنوں میں جیب خرچ پانچ یا حد دس روپے تھا۔ بسوں کی چھت پہ اور ٹرینوں کے بیت الخلاء کے سامنے کپڑا بچھا کے سفر کیا۔ بچپن یا نوجوانی میں کبھی مری یا شمالی علاقہ جات کا سفر نہیں کیا۔

سڑکیں تنگ اور ٹوٹی پھوٹی ہوتی تھیں۔ اے سی گاڑیاں خال خال نظر آتی تھیں اور جو تھیں انہیں افورڈ کرنا ہر ہما شما کے بس کی بات نا تھی۔ اپنی کالج لائف تک موبائل تو کیا لینڈ لائن پہ بھی فون ملانے کی سعادت نصیب نا ہوئی۔ پیزا برگر کھانا تو دور اشتہارات سے بھی محروم تھے۔ ہوائی جہاز کے سفر کی حسرت تک کبھی پیدا نا ہوئی۔ تب سرکاری نوکریاں کوٹے کی صورت میں سیاسی بندر بانٹ کی بنیاد پہ یا مخصوص ریٹ پہ ملتی تھیں۔ ہر یونین کونسل میں سرکاری شفاخانے تھے نا ہر اسپتال میں ڈاکٹر میسر ہوتا تھا۔ ٹیسٹ اور ادویات تو بہت دور کی بات ہے اور اور اور۔ ۔ ۔

میں آج بھی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں، میری فیملی کرائے کے مکان میں رہتی ہے لیکن آج میری اور میرے بچوں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ میں ستائیس سال کی عمر میں قسطوں پہ سہی ذاتی بائک کا مالک بنا، حیات غیر طیبہ کے چونتیسویں برس زندگی کی (بلکہ خاندان کی) پہلی کار خریدنے کا شرف حاصل ہوا۔ میرے بچے پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہیں۔ رکشہ پہ آتے جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز کا سفر کر چکے۔ کوئٹہ سے لے کر مری گھوم چکے۔ پنج ستارہ ہوٹلوں میں رہ لئے۔ لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون پہ گیمز کھیلتے ہیں اور پیزا، برگر و شوارمہ کے باقاعدہ شوقین ہیں۔

پورے پاکستان بالخصوص پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ہی نہیں مفت ادویات اور ٹیسٹس کی سہولیات موجود ہیں۔ نوکریاں کسی سفارش یا سیاسی وابستگی کی بجائے اوپن میرٹ پہ ملتی ہیں۔ دور دراز کے قصبوں تک کھیت سے منڈی تک سڑکوں کا جال بچھا ہے۔ موٹر ویز بن چکی ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی مناسب تعداد موجود ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ میڈیا کا دور ہے سرکاری ادارے من مانی نہیں کر سکتے۔ کئی سرکاری ادارے آن لائن ہو چکے۔ عوام میں اپنے حقوق کا شعور پہلے سے بہت زیادہ ہے اور اور اور۔ ۔ ۔

میں مانتا ہوں کہ ہماری زندگی میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں ٹیکنالوجی کی وجہ سے بھی آئیں لیکن اس بات سے ہرگز ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دامے درمے سخنے سسٹم اور گورنمنٹ نے بھی ہمیں سپورٹ کیا۔ تو کیا آج ہم کسی گوئبلز کے فلسفے، کسی مسلسل جھوٹ کا شکار تو نہیں؟ میں اپنے ہم عمروں، نوجوانوں اور بالخصوص تحریک انصاف کے حامیوں کے سامنے یہ سوال رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کی اکثریت بھی اسی مڈل کلاس سے ہے جو آج پاکستان میں بہتر زندگی بھی گزار رہی ہیں اور پورے خلوص سے لٹ گئے برباد ہو گئے والے فلسفے پہ بھی یقین رکھتے ہیں۔ ایک بار، صرف ایک بار ضرور سوچئے گا کہ کہیں ہم پروپیگنڈے کا شکار تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).