ایک استاد چھ مضمون اور 165 طلباء


گورنمنٹ پرائمری اسکول چڑا پولاد ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ کے گاؤں چڑاپولاد میں واقعی ہے خاکسار خود اسی اسکول میں پڑھا ہے اس وقت ہمارے استاد بہاول دین صاحب (مرحوم) ہوا کرتے تھے۔ وہ بیک وقت ہیڈ ماسٹر حتی کہ کلرک اور پانچوں کلاسوں کے استاد بھی تھے چونکہ اکیلے استاد تھے اور اس وقت نہ ہی خیبر پختونخواہ میں برائے نام تبدیلی آئی تھی اور نہ ہی ملکی سطح پر ریاست مدینہ کا کوئی تصور تھا تو دوسرے اساتذہ وہاں لگے ہوئے تو تھے لیکن آج تک ہمیں ان کا نام تک معلوم نہیں کے وہ کون لوگ تھے۔

کئی مہینوں میں شاید ایک مرتبہ آجاتے تھے اور چند منٹ بیٹھ کر ہم سے چائے انڈے، ثوبت کھا پی کر چلے جاتے اور پھر سکون سے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے رہتے۔ لیکن مرحوم بہاول دین ایک دین دار شخصیت تھے اور وہ کہتے تھے میں اپنا رزق حرام نہیں کمانا چاہتا۔ اور یہی وجہ تھی کہ بخار کے ساتھ بھی حاضری کرتے تھے۔ وہ بہت سخت استاد تھے ہم روز دعا کرتے کہ آج بارش ہوجائے، آندھی آجائے کیونکہ یہ تو بیماری میں بھی اسکول پہنچ جاتے ہیں لہذا اس سے کچا راستہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں پہنچ پائیں گے لیکن وہ شدید بارش اور طوفان میں بھی اپنے سائیکل پر کیچڑ سے لت پت پہنچ جایا کرتے تھے۔

مجھے شروع سے ہی انگریزی زبان سے بہت زیادہ لگاٶ تھا اور میں اسی دلچسپی میں انگریزی کتاب اٹھا کر استاد صاحب کے پاس جاتا تو وہ مجھے یہ کہہ کر جھٹک دیتے تھے کہ تمہیں انگریز بننے کا بہت شوق ہے کیا کرلوگے انگلش سیکھ کر، چلو جاٶ اپنی جگہ پر بیٹھ کر ریاضی نکال لو! یا کوئی دوسرا مضمون لہذا اسی دن سے مجھے ریاضی سے شدید نفرت ہوگئی تھی اور اس کی وجہ تھی مجھے انگریزی نہ پڑھنے دینا یا پڑھانا۔ استاد صاحب کا بھی قصور نہیں کیونکہ وہ اسلامیات کے ٹیچر تھے لیکن مجبوری سے اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سارے مضمون پڑھانے پڑتے تھے لیکن وہ انگریزی بالکل بھی نہیں پڑھاتے تھے یہ اب اللہ ہی بہتر جانے کے انہیں اس پر عبور نہیں تھا یا پھر انگریزی سے نفرت؟

خیر ہم شروع سے بنیادی تعلیم کی ناپختگی کے سبب نالائق طالب علم تھے دھکے کھا کھا کر الٹی سیدھی لکیریں کھینچنے کے کچھ حد تک قابل ہوگئے لیکن اب مجھے فکر تھی ان معماروں کی جن کا مستقبل میری آنکھوں کے سامنے بربادی کے دہانے پر تھا۔ کیوں کہ اس دوران اسکول میں کوئی ایسا ٹیچر نہیں تھا جو صحیح معنوں میں علم کی شمع روشن کرتا۔ اس کشمکش میں تھا کہ اب کیا ہوگا میرے گاٶں کے بچوں کے روشن مستقبل کا۔ کہیں یہ بھی ہماری طرح اچھی اور بہترین بنیادی و معیاری تعلیم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم تو نہیں رہ جائیں گے؟ اور کیا یہ بھی ہماری طرح چھٹی کلاس میں جاکر اے بی سی سیکھ پائیں گے۔ اور وہ بھی تب جب ان میں سے کوئی ایک آدھ بچہ شہر کے اسکول میں پہنچ پائے گا؟

اتنے میں ایک امید کی کرن دیکھائی دی پتہ چلا کہ ہمارے اسکول کے ساتھی محمد اعظم کو ٹیچر کی نوکری مل گئی ہے اور وہ بھی اسی اسکول میں جہاں ہم ایک ساتھ کئی عرصہ تک پڑھتے رہے تھے وہ وہاں کے استاد مقرر ہوگئے ہیں یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ وہ ایک انتہائی لائق اور محنتی طالب علم تھے۔ انہوں نے ستمبر 2007 کو بطور ٹیچر اسکول سنبھالا اور دیکھتے ہی دیکھتے یقین کیجئے ان کے طلباء انگریزی میں اس قدر قابل ہوگئے کہ جب میرے چھوٹے بھائی اسکول سے چھٹی کرکے گھر پر واپس آتے تو وہ مجھ سے ایسے ایسے انگریزی کے الفاظ پوچھتے جو میں بھی پہلی مرتبہ سن رہا ہوتا تھا اور مجھے انگلش ڈکشنری کھولنے پر مجبور کردیتے تھے۔

اس کا راز جب میں نے مذکورہ ٹیچر سے پوچھا تو انہوں نے خاکسار کو بتایا کہ جب میں اسکول میں آیا تو ایسا اس اسکول کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا تھا کے ایک ٹیچر نے اسلامیات، اردو، سائنس اور ریاضی کے علاؤ بھی باقاعدگی سے انگریزی پڑھانا شروع کردیا۔ چونکہ ہم اسی اسکول میں پڑھے تھے تو میں اس چیز کا عینی شاہد بھی تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ حضرات ناصرف بچوں بلکہ اپنے ساتھ بھی بہت زیادتی کرتے ہیں کہ ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر اپنا فرض صحیح ادا نہیں کرتے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری حکومت اورمتعلقہ محمکہ بھی بہت بڑی زیادتی کررہا ہے کہ جہاں کم از کم پانچ ٹیچرز ہونے چاہیے تھے وہاں 2007 سے 2018 تک مسلسل ایک استاد چھ مضمون اور 165 طلباء۔ جب کہ سرکاری سطح پر کم سے کم منظور شدہ اساتذہ کی تعداد چار ہے۔ لیکن محمکہ کی نا اہلی دیکھیے کہ 165بچے جس میں گیارہ لڑکیاں اور جماعت اول ادنی، اول اعلی سے لے کر پنجم تک مختلف کلاسز کو بیک وقت ایک ہی ٹیچر ناصرف پڑھا رہا ہے۔ ماضی کو چھوڑیں اب بھی یعنی نئے پاکستان میں بھی ویسا ہی چلا آرہا ہے جیسا پرانے پاکستان میں تھا۔

کیا یہ ظلم کی انتہاء نہیں کہ ایک ٹیچر اتنے سارے مضمون اور پھر چھ کلاسیں آخر دوران تعلیم اس ٹیچر کی ذہنی حالت کیا ہوگی؟ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ محمد اعظم کی بہترین کارکردگی کے پیش نظر دن بدن بچوں کی تعداد بڑھ رہی کیا یہ ٹیچر مزید محنت و لگن سے صحیح طریقے کے ساتھ بچوں کی کثیر تعداد کو پڑھا پائے گا؟ یا پھر یہ لوگ انسان نہیں اور ہمارے پسماندہ علاقوں کے بچے ان پڑھ و جاہل لوگوں کی اولادیں ہیں۔ اعلی افسروں و عہداروں کے بچے ہوتے تو یوں بھیڑ بکریاں سمجھ کر ایک شخص کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جاتا جیسے ایک چرواہا اور لاتعداد بھیڑ بکریاں! دریں اثنا اسکول کی حالت تو یہ ہے کہ بچوں کے بیٹھنے کے لئے فرنیچر تو دور ٹاٹ اور پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔

پانچ اکتوبر کو دنیاء بھر میں ٹیچرز ڈے یعنی اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن ہم انگریزوں جیسے احمق نہیں جنہیں پہلے سے ٹیچرزڈے کی طرح ہر عالمی دن کا پتا ہوتا ہو ہم تو نیوز چینل پر ہی سنتے ہیں کہ اچھا آج فلاں عالمی دن ہے ایسی فضول چیزوں بارے معلومات اکٹھی رکھنے کی فرست ہی کہاں اور وہ انگریز تو اس بارے میں لاتعداد آگاہی تقریبات کا انعقاد کرکے ایسے فضول میں جھک مار کر پیسہ ضائع کردیتے ہیں۔ اور تو اور وہ کتنے پاگل ہیں کہ ہر مضمون کے لئے ان کے ممالک میں کسی مضمون پر عبور رکھنے والے کو ہی وہ مضمون پڑھانے کا اختیار ہوتا ہے۔ مطلب یہ کے ہر مضمون کا اپنا ٹیچر ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں ان کے جیسا وقت اور پیسے کا ضیاع نہیں کیا جاتا بلکہ جب ایک ٹیچر اتنے سارے مضمون ایک ساتھ پڑھا سکتا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ایک اسکول میں چار چار ٹیچر رکھے جائیں ظاہری سی بات ہے ملکی خزانے سے پیسہ ایویں خواہ مخواہ برباد ہوگا۔ باقی ان بچوں نے پڑھ لکھ کر کچھ کرنا تو ہے نہیں! آخر میں اتنا ہی کہونگا کہ جس ملک میں ایک استاد کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہو اور مستقبل کے معماروں کو بنیادی بہترین معیاری تعلیم ہی میسر نہ ہو وہاں کی نسلیں خاک ترقی کر پائیں گی۔

ملک رمضان اسراء

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملک رمضان اسراء

ملک رمضان اسراء مصنف معروف صحافی و قلم کار ہیں۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز سے وابسطہ ہیں جبکہ دنیا نیوز، ایکسپریس، ہم سب سمیت مخلتف قومی اخبارات کےلیے کالم/بلاگ لکھتے ہیں اور ہمہ وقت جمہوریت کی بقاء اور آزادئ صحافت کےلیے سرگرم رہتے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے ماس کیمونی کیشن کررہے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر اور فیس بُک آئی ڈی اور ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔ malikramzanisra@yahoo.com

malik-ramzan-isra has 18 posts and counting.See all posts by malik-ramzan-isra