شہباز شریف، سب کچھ بدلنا ہے


میں حسب معمول آفس جانے کے لئے گھر سے نکلا تو گلی میں ماسٹر کبیر بھی ہر روز کی طرح تین گلیوں کے ملاپ والی جگہ سیمنٹ کے بنے تھلے پر بیٹھے تھے، مگران کے تیور آج کچھ بدلے ہوئے تھے۔ سیدھے ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں کے بیچ میں سگریٹ پھنسا کر انگوٹھا ٹھوڑی پر لگایا ہوا تھا، دوسرے ہاتھ میں اخبار لئے اس کی سرخیوں میں محو تھے۔ میرے سلام کا بھی جواب نہیں دیا تو

میں نے قریب جا کر پوچھا کہ خیریت تو ہے؟
ناک پر لگے چشمے کے شیشوں سے اوپر جھانکتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
ہاں خیریت ہے۔
ایک لمحے کے لئے مجھے دیکھا اور پھر ٹھوڑی پر رکھا ہوا انگوٹھا ہٹا کر سگریٹ والا ہاتھ اخبار کی سرخیوں پر ایسے گھمانے لگے جیسے جہاز لینڈنگ سے پہلے نچلی پرواز کرتا ہے۔
میرے استفسار پر سندھی زبان کی پرانی کہاوت سناتے ہوئی سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
’بیمار بنگل مَرے گاہی‘۔ یعنی بیمار تو بنگل نامی شخص تھا یہ گاہی نام کا بندہ مرگیا۔
میں نے کہا ’کون بنگل، کون گاہی‘؟

کہنے لگے بھئی ’ہم تو سوچ رہے تھے کہ اپنے کمانڈو کی باری ہے مگر یہ تو خادم اعلیٰ کی شامت آگئی‘۔
مین نے کہا ’ماسٹر جی اللہ اللہ کرو جو کرے گا وہ بھرے گا۔ ‘
تڑاک سے بولے، ’کیا بس اسی نے ہےَ؟ باقی سب فرشتے ہیں؟ ‘
مجھے غصہ بھی آیا پھر شک بھی ہوا کہ راتوں رات کسی لیگی نے اس کو خرید تو نہیں لیا۔

میں آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ بولا ’بھئی ایک بات تو ہے، پنجاب میں یہ بندہ مقبول بہت ہے‘ تھوڑا توقف کرکے بولے ’بھئی اس نے کام بھی کیا ہے نا، لاہور جاکے تودیکھو‘
میں نے کہا ماسٹر جی ملک کی 50 فیصد سے زیادہ بجٹ ایک شہر پر لگاؤ گے تو ایسا ہی دکھے گا نا‘

میں کترا کہ نکلنے ہی لگا تھا کہ اس نے ایسا فقرہ کسا کہ مجھے رکنا پڑا۔ کہتا ہے کہ ’تمہارے رئیس کے کتنے اکاؤنٹ پکڑے ہیں میمن صاحب نے؟
میں واپس مڑا اور بولا ’بھئی کونسے اکاؤنٹ؟ کس کے اکاؤنٹ؟ ماسٹر جی لگتا ہے آپکا دماغ چل گیا ہے‘۔
کہنے لگا کہ دماغ تو تیرا چل جائے گا جب میمن صاحب اپنا رنگ دکھائے گا‘
(میمن صاحب سے ان کی مراد ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن صاحب تھی جو ان کے گاؤں ہالا کا رہنے والا ہے۔ )

میں نے کہا ’ماسٹر جی بات کس کی ہے، آپ کیا باتیں کر رہے ہو؟ بھئی پنجاب کا سابق وزیراعلیٰ گرفتار ہوا ہے، آپ میمن صاحب کو بیچ میں لارہے ہو‘
کہنے لگا کہ ’بات یہ نہیں ہے، بات اصل میں یہ ہے کہ سیاستدانوں کو ذلیل کرنے والے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں‘

میں نے کہا ماسٹر جی آپ کی باتیں مجھے پاگل کردیں گی۔
کہنے لگا ’ابھی دو دن پہلے بحث کر رہے تھے نا کہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بناؤ، پی پی والے بھی کہہ رہے تھے کہ ایسا نہیں ہوا تو وہ بھی اسٹینڈنگ کمیٹیز میں نہیں بیٹھیں گے‘
میں نے کہا ’تو کیا ہوا‘
مسکراتے ہوئے بولے ’اب تو سمجھ آئی نا کہ یہ فیصلہ پہلے ہو چکا تھا؟ تبھی تو مزاحمت ہوئی، ویسے قائد حزبِ اختلاف بنانے میں تو کوئی دیر نہیں کی تھی۔
میں نے کہا ’او ماسٹر جی شہباز شریف کے خلاف انکوائری چل رہی تھی، اس کے دست راست فواد حسن فواد اور احد چیمہ پہلے سے جیل میں تھے۔
بولے ’نیب کوسیاستدانوں کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا؟
مین نے کہا کہ ’جو بھی غیر قانونی کام کرے گا پکڑا جائے گا؟ ‘

بولے ’وہ جو چیف جسٹس بیٹھ کہ ایک ملزم کو کہتا ہے کہ سیکیورٹی بھی دینگے، تمہارے گھر کی صفائی بھی کروائیں گے بس ایک دفعہ آکے ہماری عزت بچالو، مگر وہ نہیں آتا ! پھر؟
میں نے کہا کہ ’وہ معاملہ الگ ہے، ان کی طبیعت خراب ہے‘۔

کہنے لگے ’تو نیب نے کس کے ایما پر ایسا کیا کہ بلوایا صاف پانی کے کیس میں اور گرفتار کیا آشیانہ کیس میں؟
میں نے کہا ’ماسٹر جی روز اخبار پڑھتے ہو، کیا اتنا بھی علم نہیں کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے، جس کا چیئرمین نون لیگ اور پی پی نے لگایا ہوا ہے؟ وہ کیسے ڈکٹیشن لے سکتا ہے؟ ‘
بولے ’ بھئی نیب کو چلانا ہوتا تو وزیراعظم کا مشیر برائے احتساب کیوں لگایا جاتا؟ ‘
میں نے کہا ’وہ تو نیب کو قانونی مدد فراہم کریں گے نا؟ ‘
’قانونی مدد؟ ‘ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
میں نے کہا ’اور نہیں تو کیا؟ ‘

بولے ’پتہ ہے کہ وہ بندہ ہے کون؟ ‘
میں اپنی کم علمی پر سر کھجانے لگا۔
بولے ’بات سمجھ میں نہیں آئی نا؟ ‘
’ تواب سمجھا دو نا اگر آپ ہی افلاطون ہو تو؟ ‘ میں طیش میں آکر بولا

کہنے لگے ایک بات بتاؤ نیب چیئرمین کا تقرر کون کرتا ہے؟ ‘
میں نے کہا ’ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر‘
بولے ’یعنی عمران اور شہباز شریف نہ؟
میں نے کہا ’ظاہر ہے؟ ‘
بولے ’کیا اب ایسا ہوگا‘؟

میں نے کہا ’ماسٹر جی اس میں ابھی تین سال ہیں، اور دوسری بات تحریک انصاف کی حکومت کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ اتنی لمبی منصوبہ بندی کرے‘
ماسٹر جی بولے ’ارے بابا بات تحریک انصاف کی نہیں، یہ پلاننگ ان کی ہے جو سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں‘
میں نے کہا ’سب کچھ؟ ‘؟
کہنے لگے ہاں ’ وہ سب کچھ جس سے ایک سابق کمانڈوکو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).