نیب اور سیاست


پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کو نیب لاہور نے کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ اُنہیں گرفتاری کے اگلے روز احتساب عدالت میں پیش کرکے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا، گویا وہ آئندہ دس روز نیب کے دفتر میں قائم حوالات کے کسی سیل میں رہیں گے اور اپنے اوپر قائم مقدمے کے حوالے سے سوالوں کے جوابات دیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اُنہیں صاف پانی کمپنی کے معاملات پر گفتگو کے لئے بلایا گیا، لیکن آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں کرپشن کا مرتکب قرار دے کر تحویل میں لے لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے فوراً بعد وفاقی اور صوبائی وزرائے اطلاعات خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے، اور اسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے کر اِس کی داد وصول کرنے لگے۔

وفاقی وزیر صاحب نے تو یہ اطلاع بھی دے دی کہ ابھی اور بھی گرفتاریاں ہوں گی۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات اپنی روایتی گھن گرج کے ساتھ یہ بھی کہہ گزرے کہ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں، یعنی وہ بیرون مُلک فرار نہیں ہو سکتے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اِس پر خم ٹھونک کر سامنے آ گئے، پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بھی ان کی آواز میں آواز ملائی۔کہا گیا کہ یہ آئندہ چند روز میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو متاثر کرنے کی کوشش ہے.

جس طرح عام انتخابات سے پہلے نواز شریف اور اُن کی بیٹی کے خلاف جلدی جلدی فیصلہ سنایا گیا اور تین ریفرنسوں کو یکجا رکھنے کے بجائے ایون فیلڈ کا معاملہ علیحدہ کرکے گاڑی بھگائی گئی، تاکہ انتخابی نتائج کو (منفی طور پر) متاثر کیا جا سکے، اسی طرح ضمنی انتخابات کو متاثر کرنے کے لئے شہباز شریف کو حوالہ ٔ زنداں کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ ضمنی انتخابات اس لحاظ سے ”مِنی انتخابات‘‘ کہے جا سکتے ہیں کہ ان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تین درجن سے زائد نشستوں پر رائے دہندگان اظہارِ رائے کرنے والے ہیں۔ اِس الزام کو وہم قرار دے کر جھٹکا جا سکتا ہے، لیکن پاکستانی سیاست میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور نیب ماضی میں معاملات کو جس طرح بگاڑتی بناتی رہی ہے، اسے یکسر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔

سیاست میں ”ٹائمنگ‘‘ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، کوئی بھی اقدام جس تناظر اور جس ماحول میں کیا جاتا ہے، اُسے اُس سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گورنر چودھری محمد سرور کی خالی کردہ سینیٹ کی نشست کے لئے جو ضمنی انتخاب ہوا، اس میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ حسان اور برسر اقتدار جماعت کے امیدوار شہزاد وسیم کے درمیان محض 12 ووٹوں کا فاصلہ رہ گیا۔

گویا پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت محض سات ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہوتی (یا لڑکھڑاتی) نظر آئی۔ شہباز شریف کابینہ کے ایک رکن رانا مشہود نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ دھماکہ کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف سے معاملہ کرنا چاہتی ہے، موجودہ حکومت کو گھوڑا سمجھا گیا تھا، وہ خچر نکلی ہے، اِس لئے مقتدر حلقوں میں اس سے بیزاری پیدا ہو چکی ہے۔

اِس نکتہ طرازی پر مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ حلقے بھی سٹپٹا اُٹھے۔ رانا صاحب کی پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی میدان میں اُتر کر پیدا کردہ تاثر کو زائل کرنا پڑا… کہا جا سکتا ہے کہ رانا صاحب کی اس ”پھلجھڑی‘‘ کے اثرات بھی کہیں نہ کہیں کسی طرح مرتب ہوئے ہوں گے.

اس کے موثر ازالے کے لئے شہباز شریف کے خلاف کارروائی ناگزیر قرار پائی، جو کچھ بھی دور یا نزدیک کی کوڑیاں لائی جائیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری نے ارتعاش ضرور پیدا کیا ہے، اور اس کے اثرات حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے مثبت نہیں ہوں گے۔

شہباز شریف کے اسلوب اور ان کی ترجیحات سے جو بھی اختلاف کیا جائے، ان کو جاننے والا کوئی بھی شخص بآسانی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے قومی خزانے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا کرپشن کے جوہڑ میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔

وہ تین مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، اس سے پہلے ایک بزنس لیڈر کے طور پر بھی ان سے معاملات کرنے والے کم نہیں ہیں۔ وہ انسان ہیں، ان سے غلط فیصلہ ہو سکتا ہے، جذبات یا جلد بازی میں وہ لڑھک سکتے ہیں، لیکن ان کو کرپٹ کہا یا مانا جائے، یہ کم از کم ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔

جب تک کسی اقدام کو بدنیتی کا نتیجہ ثابت نہ کیا جائے یا اِس سے حاصل ہونے والی مادی منفعت کو ثابت نہ کیا جائے، ہمارے نزدیک اس پر کرپشن کی پھبتی نہیں کسی جا سکتی۔ اگر صاف ستھرے سیاست دانوں پر بھی مفروضوں کی بنیاد پر کالک انڈیلی جائے گی، تو انڈیلنے والوں کے بارے میں سوالات اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

حمزہ شہباز نے بڑی شدت کے ساتھ اِس معاملے کو ”شہباز بنام نیازی‘‘ کہا ہے، وہ وزیر اعظم عمران خان کو اس کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ نیب کے قانون اور اس کے احوال سے واقف لوگ اِس سے اتفاق نہ کریں تو بھی وفاقی اور صوبائی وزرا کے بیانات سے پیدا ہونے والے تاثر کا انکار نہیں کر سکیں گے۔

شہباز شریف پر لگائے جانے والے الزامات ہی کے حوالے سے دو بڑے افسر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کئی ماہ سے نیب کے پاس ہیں، لیکن کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا۔ شہباز شریف پر بھی کوئی قطعی الزام لگا کر ایف آئی آر درج نہیں کرائی جا سکی۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جس آشیانہ سکیم کا ذکر ہے، اس میں کوئی سرکاری فنڈ استعمال نہیں ہوا۔ یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا معاملہ تھا، جس کی بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ سرکار نے اس میں زمین فراہم کرنا تھی، جبکہ پرائیویٹ کنٹریکٹر نے وسائل لگا کر اسے ڈویلپ کرنا اور بصورت زمین اپنا حصہ وصول کرنا تھا، کام کا آغاز ہی نہیں ہو سکا تو ”اربوں‘‘ کی کرپشن کہاں سے آ گئی؟

حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے فوری اجلاس بُلا کر اِس معاملے پر بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس سے قطع نظر موجودہ حکومت کے سوچنے کا مقام بھی ہے کہ وہ احتساب کے نام پر من مانی کارروائیوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالے۔

نیب کا قانون جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی یادگار ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) پانچ پانچ سال برسر اقتدار رہنے کے باوجود اِس میں ترمیم نہیں کر سکیں۔ اسے دستوری اور قانونی تقاضوں کا جامہ نہیں پہنا سکیں۔

پہلے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو اس کی گرفت میں دیکھ کر مسلم لیگ(ن) اور بعد میں مسلم لیگ(ن) کو تڑپتے پھڑکتے دیکھ کر پیپلزپارٹی نے جس طرح بغلیں بجائیں اس نے نیب کے حوصلے جوان رکھے ہیں۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے، کرپشن پر سزا بھی ملنی چاہئے، لیکن من مانے اور یک طرفہ قوانین میں ترمیم بھی ہونا چاہیے۔

پہلے کارروائی پھر الزام، کی روش دنیا میں کہیں بھی مہذب معاملہ نہیں سمجھا جاتا۔ نیب کو نوے روز تک ملزموں کا ریمانڈ مل سکتا ہے، ان کے پاس ضمانت کا حق بھی نہیں ہوتا کہ احتساب عدالت کو یہ اختیار نہیں۔ اور تو اور احتساب عدالت کے سزا یافتگان کی (قانونی طور پر) ضمانت بھی نہیں ہو سکتی، یہ تو اعلیٰ عدالتیں دستور کی دفعہ 199 کے تحت حاصل اپنے دستوری اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایسے افراد کو ریلیف دے گزرتی ہیں، وگرنہ نیب کا قانون انہیں اِس کا اختیار نہیں دیتا۔

نیب حکام یک طرفہ طور پر اپنے جس ملزم کو چاہیں گرفتار کر لیتے اور جس کو چاہیں ریفرنس کے بعد بھی آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ جس کا نام چاہیں ای سی ایل پر ڈلوا دیتے ہیں، اور جس کو چاہیں بے لگام چھوڑ دیتے ہیں، اس طرح کی صوابدید نہ سیاست کے لئے مفید ہے نہ معیشت کے لیے…

پاکستان تحریک انصاف اپنے حریفوں کی سیاست نہ دہرائے، مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کی ضد میں نیب قوانین کی حفاظت کے لئے سینہ سپر نہ رہے، کل یہ روش اسے بھی مہنگی پڑ سکتی ہے… سیاسی نفع نقصان سے بے پروا ہو کر نیب قوانین پر نظر ثانی ہونی چاہئے کہ اسی میں سیاست اور اہل سیاست کا فائدہ ہے۔

تحریک انصاف کے مخالفین بھی جان لیں کہ نیب کے حوالے سے حکومت پر تنقید کر کے وہ اپنے دِل کا بوجھ تو ہلکا کر سکتے ہیں، حقائق تبدیل نہیں کر سکتے… وزرائے کرام اپنی مونچھوں کو جتنا بھی تائو دے لیں، نیب حکومت کا ماتحت ادارہ نہیں ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت اِس سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکی، تو بے چاری موجودہ حکومت کیسے اپنی ٹانگ اوپر رکھ لے گی۔

بشکریہ پاکستان

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami