قرض لینے دو!


وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی عوام کو قرضوں کے نقصانات اور معیشت کی زبوں حالی میں قرضوں کے کردار پر طویل لیکچر دیتے آ رہے ہیں، کبھی کبھار تو یہ عالم ہوتا کہ ایک ٹی وی چینل پر ایک گھنٹہ معیشت پر گفتگو کے بعد وہ دوسرے پر پہنچ جاتے اور یوں رات بارہ بجے تک انہیں متواتر چار گھنٹے بھی لیکچر دینا پڑتے تھے۔ اپوزیشن میں تھے تو آزادی تھی جو مرضی پالیسی سامنے رکھیں جس پر جو مرضی الزام عائد کر دیں، قرضوں کو ناسور کہہ دیں اور خودانحصاری کے لئے طویل فہرست نکال کر پاکستان میں موجود وسائل بروئے کار لانے کی باتیں کریں۔ کیونکہ اپوزیشن میں باتیں ہی تو ہوتیں ہیں، جتنی متاثرکن باتیں ہوں گی اتنے کارکن خوش ہوں گے۔ حکومت کے ہر کام پر تنقید اور اپنی ہر پالیسی کو حکومتی پالیسی پر زیادہ جامع اور کامیاب قرار دینا بھی اپوزیشن کا حسن ہوتا ہے۔

حکومت اگر دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا اعلان کرے اور کامیاب ہو جائے تو کامیابی حکومت کی نہیں ادارے کی اور اگر خدانخواستہ مطلوبہ نتائج نہ مل سکیں تو ناکامی حکمرانوں کی۔ سی پیک کے لئے چینی صدر کی پاکستان آمد سے قبل اس پراجیکٹ کو جھوٹ قرار دینا، چینی صدر کا دورہ ناممکن بنا دینا اور کہنا کہ ایسا کوئی پراجیکٹ وجود ہی نہیں رکھتا اور جب پراجیکٹ شروع ہو جائے کامیابی سے چلنے لگے تو کریڈٹ کسی ادارے کو دے دینا، پیٹرول کی قیمت بڑھنے لگے تو قصوروار حکمران اور اگر کم ہو جائے تو کریڈٹ عالمی قیمتوں کو دے دینا، کھاد، گیس، بجلی کی قیمتیں کم ہوں تو ان قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ سے باہر قرار دینا اور اگر زیادہ ہو جائیں تو قصوروار حکمران۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہو تو دلائل سے ثابت کرنا کہ لوڈشیڈنگ ایک گھنٹہ بھی کم نہیں ہوئی اور اگر کہیں فنی خرابی سے دورانیہ دو گھنٹے بڑھ جائے تو شہباز شریف کی تقریروں کے حوالے دینا۔ ایسے ہی کام اپوزیشن کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے، اگر ماضی کے پانچ سال پی ٹی آئی اپوزیشن نہ بھی کرتی تو بھی یہی حالات ہوتے اور اپوزیشن اسی قسم کے بیانیہ پر چلتی اور اب اگر پی ٹی آئی حکومت میں ہے تو بھی اپوزیشن اسی پالیسی پر چلے گی۔ ماضی کے حکمران آج کی اپوزیشن اور ماضی کی اپوزیشن آج کی حکمران۔ پالیسیاں وہی گھسی پٹی دقیانوسی ہوتی ہیں، اپوزیشن کے حصے میں شور کرنا اور حکومت کے حصے میں قرضہ وصول کرنا بنیادی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے مگر پہلی بارحکومت حکمرانی پالیسی اپنانے میں کچھ وقت لے رہی ہے۔

اسد عمر جو پی ٹی آئی کارکنوں کو قرض مخالف بیانیہ پر پی ایچ ڈی کروا بیٹھے تھے حکومت میں آتے ہی انہوں نے پہلی نوید یہ سنائی کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینا پڑے گا جس پر مخالف جماعتوں کے کارکنوں اور میڈیا نے تنقید تو کی سو کی، حکمران جماعت کے سوشل میڈیا واریئیرز نے بھی توپوں کے دھانے پر اسد عمر کو بٹھا دیا اور توپ سے گولے نکلنے ہی لگے تھے کہ حکومت نے قرض لینے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔

ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت اچانک اشیاء خورد و نوش، پیٹرولیم مصنوعات سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھانے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ حکومت نے تمام معاشی پالیسیاں ایک طرف لپیٹ کر رکھ لیں اور عوام کو مہنگائی، ٹیکس، ٹریفک چالان اور تجاوزات کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ ساتھ تواتر کے ساتھ نئے بیانیہ سے روشناس کروا دیا کہ ملک پر قرضے بڑھ چکے ہیں معیشت ڈوب چکی ہے، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، حکمران لوٹ کر کھا گئے، ٹیکس کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے، قوم کو قربانی دینا ہوگی اور چونکہ پی ٹی آئی اپنے بیانیے کو مقبول بنانے میں ماہر ہے لہذا انہوں نے نہ صرف تواتر کے ساتھ یہ بیانیہ سامنے رکھا بلکہ اپنے کارکنان اور سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے لوگوں کو یقین بھی دلا دیا ہے کہ حکومت مہنگائی کرنے پر مجبور ہے خزانہ جو خالی پڑا ہوا ہے۔

مطمع نظر یہی ہے کہ عوام مہنگائی کے طوفان کے سامنے آ کر کھڑے ہو جائیں، اپوزیشن بھی تنقید میں اضافہ کرے اور بالآخر اسد عمر پہلے دن کی بات ننانویں روز میڈیا پر آ کر بتائیں کہ‘ بیل آؤٹ پیکج‘ کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے تب تک آئی ایم ایف سے حکومتی مذاکرات بھی حتمی شکل اختیار کر چکے ہوں گے اور عوام حکومت کو اجازت دے دے گی کہ ہماری گردن ’گھراٹ‘ میں سے نکالو چاہے قرضہ لو یا لوٹی دولت لے کر واپس آؤ۔ اسدعمر کو قرض چاہیے اور قرض کے حصول تک حکومت ملک میں ایسے مباحثوں کا انتظام کرے گی کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک، اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، اسٹاک ایکسچینج میں مندی، اے ایف ٹی ایف اور سب سے بڑھ کر دو سال سے گمشدہ سی پی کی بجائے شہباز شریف گرفتاری، نواز شریف پیشی، عثمان بزدار اور ڈی پی او جیسے دیگر زیادہ اہم موضوعات پر بات ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).