پی ایچ ڈی سند کے حصول سے آئی پی ایف پی کے حصول تک


سالِ گذشتہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے مہیا کردہ یا ’بخشش‘ کردہ پروجیکٹ آئی پی ایف پی (Interim Placement fresh PhD‘s) کے لئے ہم اُمیدوار ہوئے اور ایک عرضی (فارم) کےہمراہ اپنی تمام تر تعلیمی اسنادایچ ای سی کے دفترمیں جمع کرادی۔ اس بخشش کے حقدار ہم اس لئے ہوئے کہ چونکہ ہم نے پی ایچ ڈی نامی خطرناک ’جُرم‘کیا تھا اور‘ثبوت‘ کے طور پر جامعہ کراچی نے سند بھی عطا ء کردی تھی۔ ایچ ای سی کے فارم میں درج تمام شرائط و ضوابط پر نگاہ پڑی تو ہم خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ یہ پروجیکٹ بڑی سہولت کے ساتھ مل جائے گا۔ لیکن جیسے جیسے ہم اس ادارے کے اسرار و رموز سے واقف ہوئے ویسے ویسے کڑے امتحانات سامنے آتے گئے۔ کبھی اَسناد کی چھان بین تو کبھی تحقیقی مقالہ کا مطالبہ، کبھی بیرونی ممتحنین کے وثیقہ جات (Reports) کی مانگ تو کبھی ایم فل پی ایچ ڈی کے حاصل کردہ نشانات (مارک شیٹس)کا عکس، یہاں تک کہ یہ گمان ہونے لگا کہ آئی پی ایف پی پروجیکٹ کا حصول ایسے ہی ہے جیسے شیر کے منہ سے نوالہ چھیننا یا کنویں میں بیٹھ کر مگر مچھ سے کشتی لڑنا۔

جیسے تیسے کرکے ہم نے تمام شرائط پوری کردی البتہ تحقیقی مقالہ (Research Article) کی مانگ پوری کرنے کےلئے یکے بعد دیگرے چار رسالوں پر مقالہ شائع کروانا پڑا۔ پہلاریسر آرٹیکل اسلام آباد سے شائع ہونے والا تحقیقی رسالہ ’نورِمعرفت‘ میں شائع ہوا۔ دوسرا آٹیکل شعبہ علوم اسلامی جامعہ کراچی کے رسالے میں شائع ہوا۔ لیکن یہ کوشش بھی بے مقصد ثابت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ متذکرہ رسالہ ایچ ای سی سے منظور شدہ ہی نہیں یہاں تک کہ خود جامعہ کراچی کے اعلیٰ تعلیمی بورڈ بی اے ایس آر(BASR) سے بھی منظور نہیں۔ تیسرا ریسرچ آرٹیکل شیخ زاید سینٹر جامعہ کراچی کے رسالے ’الثقافہ الاسلامیہ‘ میں شائع ہوا۔

یہ رسالہ اگرچہ ایچ ای سی منظور تو تھا لیکن کیٹگری کے حوالے سے اس کی وثاقت کمزور تھی۔ یعنی یہ رسالہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پرآویزاں کیٹیگریز (درجات)میں آخری درجہ‘ Z‘پر تھا اس لئے کہا گیا کہ ہمیں یہ بھی قابل قبول نہیں بلکہ ’Y‘کیٹیگری کے کسی رسالے میں آرٹیکل شائع ہونا چاہیے۔ (سماجی علوم کےلئے کم سے کم Y کیٹیگری رسالہ میں پبلشر کروانا ضروری ہے) پھر ہم نے تحقیقی مجلہ ’التفسیر‘ کےلئے ایک مقالہ دے دیا۔ آخر خدا خدا کرکے متعلقہ رسالے میں آرٹیکل شائع ہوا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں تحقیقی رسالوں کی درجہ بندی(کیٹیگری) ہے۔ سب سے بلند درجے پر W کیٹیگری ہے جس کے حامل رسالے پاکستان میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اُردو زبان میں تو شاید کوئی رسالہ W کیٹیگری میں شامل ہو۔ جبکہ انگریزی زبان میں بھی بہت کم رسالے W کیٹیگری کے ہیں۔ دوسرے نمبر پرX کیٹیگری کے رسالے ہیں۔ اس کیٹیگری میں تو کوئی بھی رسالہ شامل نہیں۔ تیسرے نمبر پر Yکیٹیگری کے رسالے ہیں۔ پاکستان بھر میں اسلامیات کے Y کیٹیگری کے رسالے صرف 9 ہیں۔ اس قدر کم تعداد میں ریسر چ آرٹیکل شائع کروانا بہت مشکل اَمر ہے۔ سب سے اَخیر میں Z کیٹیگری کے رسالے ہیں اور ان کی تعداد بھی کم و بیش (اسلامیات میں) 10ہے۔

آئی پی ایف پی پروجیکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ متعلقہ پی ایچ ڈی اُمیدوار کی تمام تر تنخواہ ایچ ای سی فراہم کرتی ہے اور اُمیدوار کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی کسی بھی دو سرکاری جامعات کا نام انتخاب کرے اور بعدازاں ان دو میں سے ایک جامعہ میں تدریسی فرائض انجام دینے کا پروانہ مل جاتا ہے مگر اس سے پہلے شرط یہ ہے کہ متعلقہ جامعہ کی طرف سے اجازت نامہ بھی صادر ہونا چاہیے۔ سال بھر کی تنخواہ ایچ ای سی فراہم کرتی ہے اور ایک سال کے بعد متعلقہ جامعہ اگر چاہے تو ملازمت میں توسیع کرسکتی ہے لیکن ایچ ای سی کی طرف سے مزید سہولت فراہم کرنے کی گنجائش ختم ہوتی ہے۔ البتہ ایچ ای سی کا دروازہ بند نہیں ہوگا۔ اس ایک سال کے بعد ایچ ای سی ٹی ٹی ایس (Tenuretrack System)پروگرام کی پیشکش کرتی ہے جس کی مدتِ ملازمت شروع میں تین سال کےلئے ہوتی ہے۔ اس ملازمت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ تحقیقی مقالہ جات کی کثرت ہے۔ جس اُمیدوار کے جس قدرریسرچ آرٹیکلز ہوں گے اُسی قدر اُس کو ٹی ٹی ایس ملازمت کا حصول آسان ہوجائے گا۔

بہرحال اللہﷻ کا شکر ہے کہ ہم نے ایچ ای سی کی طرف سے ’نافذ کردہ‘ تمام تر قواعد و ضوابط پورے کردیئے اور آئی پی ایف پی کی منظوری بھی مل گئی۔ اُمید ہے کہ بہت جلد آفر لیٹر جاری ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).