سیلف سنسر شپ: ’اب جان کی دھمکیوں کی بجائے کام بند کرانے کی دھمکیاں ہی کافی ہیں‘


پاکستان میں حکومت اور صحافیوں کے درمیان تعلقات آزادئ اظہار کو لے کر اکثر کشیدہ رہے ہیں۔ صحافی ایک عرصے سے سرکاری اداروں کی جانب سے سینسرشپ کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ اس شکایت میں اس سال 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل خصوصاً اضافہ سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر کھل کر ریاستی اداروں پر کڑی تنقید کو دبانے کی کوششیں بھی اسی سینسرشپ کا حصہ قرار دیا جانے لگا۔ زیر عتاب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتے نیوز چینلز کو کیبل پر آگے پیچھے کر کے اور اخبارات کی ترسیل اور اشتہارات کی تقسیم پر اثرانداز ہو کر مخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہے ہیں۔ بی بی سی اردو نے اپنی اس سیریز میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں سینسرشپ کی صورتحال کیا ہے۔آج پڑھیے دنیا ٹی وی سے وابستہ صحافی اور سینیئر پروڈیوسر شاہزیب جیلانی کے تاثرات۔

چند دن پہلے خبر آئی کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی کی گئی کہ میڈیا آزاد ہونے کی بجائے فوجی دباؤ کے تحت مزید سیلف سینسرشپ کا شکار ہو گیا ہے۔ میڈیا کو خاموشی سے لگام دینے کا یہ طریقہ کتنا مؤثر ثابت ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اس معاملے پر اپنی جامع رپورٹ جاری کی، پاکستان کے اکثر چینلوں اور اخبارات نے یہ خبر چلانے سے یا تو پوری طرح گریز کیا یا پھر نیچے کہیں دفن کر دیا۔

ہمارے ذرائع ابلاغ میں خود ساختہ پابندیاں کوئی بریکنگ نیوز نہیں، روز مرہ کی ایک حقیقت ہے۔ ہر جمہوری یا نیم جمہوری دور میں سیلف سینسر شپ کسی نہ کسی روپ میں ہماری ساتھ رہی ہے۔ کراچی میں جب تک الطاف حسین کا حکم چلتا تھا، میڈیا والے ان سے بچ کر چلنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ جن دنوں طالبان کی خونریزی عروج پر تھی، ہم ان کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت کرنے سے گریز کرتے تھے۔ مذہبی نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والوں سے ہم آج بھی نہایت ہی ادب و احترام سے پیش آتے ہیں کہ کہیں ناراض ہو گئے تو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔

صحافت

اپنے اوپر پابندیاں کوئی شوق سے نہیں لگاتا۔ یہ سمجھوتے اکثر مجبوراً کیے جاتے ہیں۔ زندہ رہے تو صحافت بھی ہو گی۔ کام کی وجہ سے جان چلی گئی تو نہ اپنا بھلا ہوگا نہ صحافت کی کوئی خدمت۔ یہ پرانے پاکستان کے چیلنج تھے، جن کے ساتھ ہم نے جیسے تیسے جینا سیکھ لیا۔ نئے پاکستان کے لیے جو غیراعلانیہ پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ مخلتف نوعیت کی ہیں۔ اب جان کی دھمکیوں کی بجائے کام بند کرانے کی دھمکیاں ہی کافی ہیں۔

میری نظر میں اس روش نے ایک باقاعدہ پالیسی کا روپ اس وقت دھارنا شروع کیا جب کہیں کسی نے وزیراعظم نواز شریف کو چلتا کرنے کی ٹھان لی۔ پاناما کیس کے دوران بعض حلقوں کی طرف سے متنازع قرار دی گئی جے آئی ٹی کی تشکیل اور ججوں کے بارے میں متاثرہ فریقین اور بعض سیاسی مبصرین کی جانب سے کہا گیا اور رپورٹ بھی ہوا کہ ان کا رویہ جانبدارانہ تھا۔ آپریشن ردوبدل کے معماروں نے اس کا یہ علاج نکالا کہ میڈیا کو بھی لگام دینے کا تہیہ کر لیا۔

کچھ عرصہ پہلے تک اگر آپ کسی صحافی سے پوچھتے کہ آپ کے یہاں ریڈ لائن کیا ہے تو وہ دیگر باتوں کے ساتھ فوج اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کا ضرور ذکر کرتا۔ پچھلے سوا سال کے دوران یہ ریڈ لائن مسلسل کھسکتی اور شکنجہ کستا چلا گیا ہے۔

پابندیوں کی یہ لکیر ایک تصوراتی لائن ہے۔ میری معلومات کے مطابق اکثر میڈیا ہاؤسز میں ایڈیٹوریئل پالیسی نام کی کسی دستاویز کا کوئی وجود نہیں۔ ایسے ماحول میں آپ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیا بات کہی جا سکتی ہے، کیا نہیں۔ میں کوئی 15 برس بی بی سی جیسے ادارے سے منسلک رہا۔ رپورٹر اور ایڈیٹر رہا۔ مختلف ممالک کے زبردست صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، پاکستان کے اندر اور باہر کام کیا۔ اس عرصے میں میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی کے دباؤ یا خوف کی وجہ سے حقائق اور مصدقہ معلومات روک لی گئی ہوں یا سینسر کر دی گئی ہوں۔ پاکستانی میڈیا جس دباؤ میں کام کر رہا ہے یہاں فوج کو ناراض کرنے کا خوف اور اس قسم کی بلاجواز کاٹ چھانٹ خطرناک حد تک پھیل چکی ہے۔

صحافت

ملک کے تین بڑے اور پرانے میڈیا گروپس کو ہی لیجیے: پچھلے ایک عرصے کے دوران جنگ/جیو، ڈان اور نوائے وقت پر جو گزری ہے، وہ انڈسٹری میں سب جانتے بھی ہیں لیکن کوئی بولنے کو تیار بھی نہیں۔ ان اداروں کا بظاہر قصور ریاست کے طاقتور اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں ابتدائی ہچکچاہٹ ہے۔ یہ شاید آزاد صحافت کی سزا ہی ہے کہ فوج اور اس کے ذیلی ادارے کسی چینل کو گرانے پر لگ جائیں۔ شہر، شہر، کنٹونمنٹ والے علاقوں میں کسی اخبار کی سرکولیشن رکوا دیں، اشتہارات بند کرا دیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کا ماضی میں کیا کردار رہا اور وہ کتنا پیسہ بناتے رہے، آج ان کے اندرونی حالات اتنے گمبھیر بتائے جاتے ہیں کہ ملازمین کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں دی جاتیں، عملے کے لوگ نکالے جا رہے ہیں یا تنگ آکر خود ہی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

بہت سے صحافیوں سے سنا کہ کس طرح فوج کی خوشنودی کے لیے میڈیا گروپس کو اپنے ادارتی فیصلے وردی والوں کے تابع کرنے پڑے اور انھیں اپنے صحافیوں کی سرزنش کرنی پڑی۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے ایک سینیئر تجزیہ نگار کو ان ہی کے پروگرام سے کچھ عرصے کے لیے الگ کر دیا۔ فوج کے ناپسندیدہ سمجھے جانے والے بعض تجزیہ نگاروں پر غیر اعلانیہ پابندی لگانے کی بات بھی کی گئی۔ اسلام آباد کے کچھ نامور صحافیوں کو ٹوئٹر وغیرہ پر اپنے خیالات کا اظہار بند کرنا پڑا۔ بعض اداروں نے اپنے کچھ اینکروں کے پورے کے پورے پروگرام نشر کرنے سے روک دیے۔

جب کسی نے سوشل میڈیا پر اس بلاجواز سینسرشپ کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا، تو مزید دباؤ آیا کہ وہ اپنی پوسٹس حذف کر دیں، جو انھیں کرنا پڑیں۔ الیکشن کے دنوں میں رپورٹنگ کے دوران خود مجھے بھی اس قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا۔

ایک طرف صحافیوں اور صحافتی ادروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف نت نئے چینل لانچ ہو رہے ہیں۔ ان کے پیچھے کون ہے؟ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ یہ نئے چینل پہلے سے موجود دو درجن چینلوں سے کس طرح مختلف یا بہتر ہوں گے؟ یہ سب واضح نہیں۔

صحافت

فوج پاکستان کا سب سے طاقتور ادارہ ہے اور اس کی پرچھائیں معیشت، سیاست،صحافت، عدالت، خارجہ امور، غرض کہ قومی زندگی کے ہر اہم پہلو پر موجود ہے۔ اس لیے اگر فوج اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر رپورٹنگ نہیں کی جا سکتی تو پھر رہ کیا جاتا ہے عوام کو آگہی دینے کے لیے؟ فوج کی نظر میں شاید آئیڈیل میڈیا وہ ہے جو دن رات بس سیاسی رہنماؤں کی کرپشن کے قصے سنائے اور کروڑوں لوگوں کی منتخب قیادت کو گندا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ پارلیمان اور آئین کو کمزور کرنے اور اس کا تمسخر اڑانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مگر کیوں؟ کیونکہ ہر گھسی پٹی فلم کے ہیرو کو سپر ہیرو بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے ولن کے خراب کرتوتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے۔ روزِ اول سے بار بار احتساب کے نام پر سیاسی جماعتوں کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کا بڑا مقصد یہی رہا ہے کہ لوگوں کا جمہوری عمل پر اعتماد نہ رہے اور قوم شعوری یا لاشعوری طور پر ایک ہی ادارے کو اپنا مسیحا اور اس ملک کی بقا کا ضامن سمجھے۔

مجبوریاں سب کی ہوتی ہیں۔ میڈیا مالکان کو ملک، قوم، جمہوریت جیسی باتوں سے زیادہ اپنی کاوباری سلطنت کی فکر ہوتی ہے۔ اینکر کہتا ہے کہ سچ کیا، جھوٹ کیا بس شو چلتا رہے۔ صحافی کی خواہش ہوتی ہے جیسے تیسے بس نوکری لگی رہے۔ ہم میں سے کچھ راضی خوشی ریاستی پروپیگینڈے کا اولین دستہ بن جاتے ہیں تو کچھ کڑھتے دل کے ساتھ جس قدر ممکن ہو اصلاح کی کوشش میں لگےرہتے ہیں۔

پاکستان میں صحافت کے گورکھ دھندے کے پرانے پاپی کہتے ہیں کہ آگے بڑھنا ہے تو لچک رکھنی چاہیے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ جب یہ فیصلے آپ کے نہ رہیں کہ کس کو لائیو دکھانا ہے، کس کو نہیں، کون سے لوگ ٹی وی پر آ سکتے ہیں، کون نہیں۔ کس کا کالم شائع ہو سکتا ہے، کس کا نہیں۔ کون سی بات کہہ سکتے ہیں کون سی نہیں، تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے؟ کون سی صحافت، کیسی اظہار آزادی کہ جس پر لوگ تھوڑا بہت بھی اعتبار کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp