ایک عظیم اور مثالی باپ کی یاد میں


والدین اللہ کی طرف سے عطاء کردہ ایک ایسی انمول نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ باپ کی شفقت و سرپرستی اور ماں کا سایہء آغوش انسان کو زندگی کی معراج تک لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ماں کی شان میں بے شمار الفاظ لکھے اور بیان کیے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ماں کی خدمت اور اطاعت کرنے پر زور دیا جاتا ہے جو کہ یقیناً درست بھی ہے۔ لیکن اس دوران باپ کی ذات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ آفاقی کتاب قرآن مجید میں جگہ جگہ لفظ ”والدین“ استعمال ہوا ہے۔ جس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں۔

واضح رہے کہ میرا مقصود ماں اور باپ کے درجات کا تقابل نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ باپ کا درجہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا ماں کا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماں اور باپ کی یکساں طور پر خدمت کی جائے خصوصاً جب وہ بڑھاپے کی عمر میں پہنچیں تو ان کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا جائے۔

باپ کے سینے میں اولاد کے لیے مؤجزن پدرانہ شفقت، اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے عمر بھر کی ریاضت، ان کی کی بہترین تربیت اور بحیثیت باپ اولاد کی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سعی۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ایک باپ کو بہترین اور مثالی باپ کے عہدے پر فائز کرتے ہیں۔

آج جب میں زندگی کی چوتھی دہائی سے گزر رہا ہوں تو پورے یقین، اعتماد اور دعوے سے کہتا ہوں میرے والد محترم جناب عبدالرزاق کھوہارا شہید نا صرف ایک عظیم اور مثالی باپ تھے بلکہ زندگی کے ہر رشتے میں بے مثال تھے۔ وہ مثالی پاب کے لیے بیان کیے گئے درجہ بالا عوامل کی کامل عملی تصویر تھے۔ ایک مثالی اور آئڈیل باپ کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس کی مثال میں ایک واقعے سے بیان کرتا ہوں۔

ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے والد صاحب کے ذہن میں نا جانے کیا سوچ آئی اور مجھ سے سوال کیا۔
”بیٹا! ذرا یہ بتاؤ کہ میں بحیثیت باپ تم سب بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ کس کو پیار کرتا ہوں؟ “

اس اچانک سوال پر میں شش و پنج کا شکار ہوا کہ کیا جواب دوں۔ پہلے جی میں آئی کہ اپنا نام لے دوں۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ سے ہی یہ دعویٰ رہا ہے کہ ابو مجھے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ لیکن پھر سوچا اگر جواب غلط ہوا تو کہیں مایوسی کا سامنا نا کرنا پڑے۔

میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ
”ابو میرے خیال میں آپ ہماری سب سے چھوٹی بہن کو سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں“

میرا جواب سن والد صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اور کہنے لگے۔
”بیٹا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک آئیڈیل باپ ثابت نہیں ہو سکا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو تمہارے سمیت سب بہن بھائی اپنے آپ کو ہی میرا چہیتا سمجھتے۔ ایک مثالی باپ تو وہ ہوتا ہے جو سب بچوں کو برابر کا پیار دے اورکسی کو یہ احساس نا ہو کہ مجھے کم پیار ملا ہے“

والد صاحب کی یہ بات سن کر مجھے شدید پشیمانی ہوئی کہ آخر میں نے اپنا نام کیوں نا لیا حالانکہ مجھے ان سب سے زیادہ چہیتا ہونے کا دعویٰ بھی تھا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ آج بھی ہم سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ پر یہی سمجھتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ پیار ملا۔ والد صاحب واقعی سچ کہتے تھے۔ وہ ایک مثالی باپ کے درجے پر فائز تھے بس ہمیں سمجھنے میں کچھ دیر لگی۔

اولاد کی پرورش اور تربیت جیسے عوامل کو دیکھا جائے تو ایک طویل داستان ہے جسے بیان کرتے کرتے قلم کی سیاہی سوکھ جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اولاد کے نان و نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہوتی ہے۔ لیکن بہت کم اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے پاتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی اولاد کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرنا اور پھر اسی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کو قربان کر کے عمر بھر کی ریاضت کرنا ایک مثالی باپ کا ہی خاصہ ہے۔

والد محترم عبدالرزاق کھوہارا نے ہماری پرورش کیسے کی اس کی مثال اس بات سے لیجیے کہ انہوں نے ہوش سنبھالا تو گھر میں تنگی و عسرت کے ڈیرے تھے۔ اس کے باوجود وہ کئی کئی میل تک ننگے پاؤں پیدل چل کر پڑھنے جایا کرتے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ مجھ سمیت ان کی تمام اولاد اعلی تعلیم مکمل کر کے برسر روزگار ہوئی۔ اور جب وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے تو گھر میں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی بڑھ کر تمام آسائشات دستیاب تھیں۔ وہ مکمل طور پر ایک سیلف میڈ انسان تھے جنہوں نے تمام محرومیاں برداشت کر کے اور مصائب سہہ کر بھی اپنی اولاد کو کسی چیز کی کمی نا آنے دی۔ بقول شاعر۔

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).