نئی حکومت بھی نئی بہو جیسی ہوتی ہے


ثابت ہوا کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر مغلظات نما نعرے لگانا اور خرافات نما تقریریں کرنا، ماضی میں ملک کے دیگر حکمرانوں کی طرح قرض لینے پر خودکشی کو ترجیح دینے کی قسمیں کھانا اور کنٹینر کو ریمپ سمجھ کر اس پر کیٹ واک کرتے ہوئے رک رک کر میڈیا کے فوٹو گرافروں اور موبائل بردار مجاہدوں اور مجاہداؤں کو پوز دینا، یا گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر گیند بازوں کی پھینکی ہوئی کمزور گیندوں کو تاک کر چھکے چوکے لگانا اور چند حربے سیکھ کر بلّے بازوں کے عقب میں چھپ کر کھڑی وکٹوں کو اڑانا، پھر کھیل کے میدان سے کمائی ہوئی شہرت اور ماں باپ کے جینز سے پائی ہوئی شکل و صورت کے بل بوتے پر عورتوں کی توجہ حاصل کرنا اور دیگر عیش و عشرت کے علاوہ تین تین شادیاں بھی کرنا۔ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا جانے والی والدہ کے نام پر برسوں ملکوں ملکوں گھوم کر چندہ جمع کر کے ایک ہسپتال بنا لینا اور اسے چلانے کے لیے پھر مزید چندہ مانگنے نکل پڑنا یہ سب بھی آسان نہ سہی لیکن ایک بظاہر ترقی پذیر مملکت کی باگ ڈور سنبھالنا مختلف چیز ہے۔ یہ کوئی ایسا ایڈونچر نہیں جیسے ہمارے وزیرِ اعظم صاحب اپنے ماضی میں کرتے آئے ہیں۔

اس معاملے میں تو ہمارے ایکٹر نما کھلاڑی وزیرِ اعظم صاحب کی نئی سرکار کا حال بھی ایسا ہی ہوا ہے جیسا کسی انتشار زدہ اور شکست و ریخت کے شکار گھر میں آنے والی نئی نویلی طرحدار (اپنے تئیں سیانی اور معاملہ فہم) بہو کا ہوتا ہے۔

جسے شروع میں لگتا ہے کہ یہ سارا بحران مصنوعی ہے اور اس بحران کا شکار سب احمق ہیں جو اب تک اس سے باہر نہیں نکل پائے ورنہ یہ تو ایک وظیفے کی مار ہے۔ ان کے تمام مصائب خود ساختہ ہیں اور خاندان بھر میں دشمنی کی حد کو چھوتی ہوئی ناچاقیاں اور نا اتفاقیاں صرف غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں جو خاندان کی ایک دعوت سے صاف کی جا سکتی ہیں۔

شوہر کے ساتھ ساتھ سسر اور دیوروں کے سروں پہ چڑھا ہوا قرض جو ان کی کمر سیدھی نہیں ہونے دیتا یہ تو شادی میں ملی سلامیوں کے پیسوں سے اتر جائے گا۔ رہے ڈھلتی عمروں تک کنواری بیٹھی نندوں کے رشتے تو ان کے لیے ہیں نا میرے رنڈوے کزن اور ناکارہ بھائی۔

اور یہ جو محلے بھر میں اس گھرانے کی خراب شہرت ہے اسے تو دو بار اچھی سی نیاز دلا کر چٹکیوں میں درست کیا جا سکتا ہے لیکن جب درحقیقت اس کا ان سب مسائل سے پالا پڑتا ہے اور قریب سے ان کا جائزہ لیتی ہے تب انداز ہوتا ہے کہ الجھاؤ کتنے پیچیدہ ہیں اور مسئلے کتنے گھمبیر ہیں پھر بھی ہاتھ پاؤں نہیں چھوڑتی اور ایک آدھ ناکام کوشش کرتی ہے لیکن جلد ہی بوکھلا اٹھتی ہے اور اصلاح ِ سسرال کا سارا بھوت سر سے اتر جاتا ہے یوں ہو جاتی ہے اس کی ٹائیں ٹائیں فشششش۔

وزیراعظم صاحب کے حامی ہمیشہ یہی کہتے ہوئے پائے گئے کہ اس بار قوم کو سیاست دان نہیں لیڈر میسر آیا ہے۔ جناب سیاست دان نہیں لیڈر ہیں۔ اور جناب نے چند دنوں میں ہی ثابت کر دیا کہ لیڈر (کپتان) میں سیاسی بصیرت نام کی کوئی چیز موجود نہیں جبکہ سیاسی بصیرت کے بغیر نہ تو ملک چل سکتا ہے نہ لیڈری زیادہ دیر چمک سکتی ہے۔ ہیرو گیری انتخابی مہم تک تو کام آ سکتی ہے لیکن منتخب ہو کر کرسی سنبھالتے ہی ہیرو کے باپ کی طرح مصلحت پسند دور اندیش اور معاملہ فہم ہونا پڑتا ہے۔ یعنی ٹھنڈی کر کے کھانی پڑتی ہے۔

اگر یہ سب حقیقت کی بجائے کسی فلم میں ہوتا تو شاید آٹھ بھینسیں بیچنے کے منظر پر تالیوں اور گاڑیوں کی نیلامی پر سیٹیوں سے تھیٹر ہال گونج اٹھتا لیکن افسوس کہ زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔

کھلاڑی ہو کر کسی دوسرے کی مینجمنٹ میں کھیل کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا الگ بات جبکہ ایک ریاست کا حکمران ہو کر کسی کی مینجمنٹ میں بادشاہ وزیر کا کھیل کھیلنا لیکن یہ ظاہر بھی نہ ہونے دینا کہ آپ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں، یہ سب کوئی آسان کام نہیں اس لیے وزیرِ اعظم صاحب کے حوصلوں کو تہ دل سے سلام۔

ہاں البتہ ایک معاملے میں ان کے یا شاید کسی غیر مرئی طاقت کے سیاسی فہم و فراست کو ضرور بھرپور طور پر سراہا جانا چاہیے کہ قومی انتخابات کے دنوں میں نواز شریف اور ضمنی انتخابات کے دنوں میں شہباز شریف کو منظر سے غائب کر کے خوب کُھل کھیلنے کا اہتمام کیا گیا۔

آخر میں عوام کے لیے مفت مشورہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کے خواب نگر کی سیر جیسے دعووں اور ان کی عملی حکومت کے تضاد کو بھی اسی طرح قبول کر لیں جیسے اپنی پسندیدہ خاتون مصنف کے لکھے ہوئے رومان اور سنسنی سے بھرپور ہائی فائی قسم کے ناولوں کو ڈرامہ بنانے کے لیے کسی غریب پروڈیوسر کے ہاتھ لگ جانے پر کئی بار صبر کر چُکے ہیں۔ کیونکہ ڈرامہ لکھنے کے پیسے ملتے ہیں جبکہ خرچہ کوئی نہیں آتا (جو جی چاہے لکھتے جاؤ آپ کے باپ کا کیا جاتا ہے) جبکہ ڈرامہ بنانے پہ پہلے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے پھر سود سمیت واپسی کی امید کی جاتی ہے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).