پی ایس 87 کا ضمنی انتخاب، اسٹیل ملز اور عمران خان


14 اکتوبر 2018 کو پی ایس 87 میں ضمنی انتخاب ہے۔ کیوں کہ عام انتخابات سے قبل تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے امیدوار مرحوم شریف احمد کی ایک حادثے میں ناگہانی ہلاکت کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی کے اس حلقے میں انتخابات ملتوی کر دیے تھے۔ پی ایس 87 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 146142 ہے۔ 83608 مرد ووٹرز اور 62534 خواتین ووٹرز ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے اس حلقے میں وہ رہائشی بستیاں بھی شامل ہیں، جہاں اسٹیل مل ملازمین کی ایک کثیر تعداد آباد ہے اور ہزاروں کی تعداد میں رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔

25 جولائی 2018 کو قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر این اے 236 کے انتخاب میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے جناب جام عبد الکریم 66623 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر مسرور علی سیال 26456 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ ( ن ) کے جناب قادر بخش 9839 ووٹ حاصل کر کے رہے۔ پی ایس حلقہ 87، این اے 236 کا ذیلی صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے۔ گو کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار جناب جام عبدالکریم عام انتخاب میں کامیاب تو ہو گئے، لیکن اسٹیل ٹاؤن، گلشن حدید فیز ( 1 ) اور ( 2 ) کے پولنگ اسٹیشنز سے تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر مسرور علی سیال نے اپنے ہر انتخابی مقابل کو شکست دی۔ واضح رہے کہ اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید میں اسٹیل مل ملازمین کی کثیر تعداد آباد ہے۔

پی ایس 87 سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار جناب ساجد جوکھیو 2002 سے لے کر اب تک اس صوبائی نشست سے کامیاب ہوتے آ رہے ہیں۔ جناب ساجد جوکھیو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صوبائی وزیر بھی رہے اور کراچی واٹر بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ محترم دوست اور سینیئر رفیق کار شیخ ہاشم نے بذریعہ فون جناب ساجد جوکھیو کے ساتھ کارنر میٹنگ کی اطلاع اور اس میں شریک ہونے کی دعوت دی، جو وائس آف پاکستان اسٹیل آفیسرز ایسو سیئیشن کے چیئرمین جناب مرزا مقصود کی رہائش گاہ پر منعقد ہونی تھی۔

جناب ساجد جوکھیو انتخابی مصروفیات کی وجہ سے تھوڑی تاخیر سے تشریف لائے، جس کی انہوں نے معذرت بھی کی۔ بات چیت کا آغاز جناب مرزا مقصود نے کیا اور حلقے کی ابتر صورت حال کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ بہتری کے لیے تجاویز بھی دیں۔ اسٹیل مل کے ابتر حالات اور حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ جن ملازمین کو اسٹیل مل نے پلاٹ الاٹ کیے تھے اور ان پر نا جائز قبضہ ہوگیا ہے، اس پر بھی بات کی گئی۔

جناب ساجد جوکھیو نے تحمل کے ساتھ تمام شکایات کو سنا اور حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ جناب ساجد جوکھیو نے اس انتخابی حلقے کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی خدمات اور ایثار کا تذکرہ کیا۔ جس کو حاضرین مجلس نے بھی تحمل اور برداشت کے ساتھ سنا۔ قصہ مختصر، قیام پاکستان سے لے کر دور حاضر تک ضلع ملیر اور حلقہ این اے 236 میں اب تک جو بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہوئے ہیں، اس کی پشت پر جناب ساجد جوکھیو اور ان کا خاندان ہے۔ اسٹیل مل کے قیام کے لیے زمین عطیہ کرنے کا معاملہ ہو، اسٹیل ٹاؤن اور کیڈٹ کالج کی تعمیر کا معاملہ ہو، گلشن حدید میں اسکول و کالج کے قیام کا معاملہ ہو، حتی کے کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی رن وے کی زمین بھی جناب ساجد جوکھیو کی مرحومہ دادی جان کی طرف سے دان کی گئی ہے اور ان ہی کے نام ہے۔

اسٹیل مل کی ابتری میں اپنی جماعت کی کوتاہی کا جناب ساجد جوکھیو نے کھل دل سے اعتراف کیا۔ بلکہ یہ بھی بتایا کہ جناب خورشید شاہ نے ان سے کہا ہے کہ اسٹیل مل کے معاملے میں ہم سے بہت بڑا ( blunder ) ہوگیا ہے۔ اسٹیل مل کی بحالی کے لیے رقم اقساط میں دینے کی بجائے، اگر یکمشت دی جاتی تو آج اسٹیل مل اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی۔ جناب ساجد جوکھیو نے وعدہ کیا اسٹیل مل کے حوالے سے وہ اسمبلی فلور پر بھی بات کریں گے اور اپنی جماعت کی اعلی قیادت کی توجہ بھی اسٹیل مل کی طرف دلوائیں گے۔ جناب ساجد جوکھیو کو یہ علم تھا کہ اسٹیل ٹاؤن کے پولنگ اسٹیشنز سے پیپلز پارٹی شکست سےدو چار ہوئی ہے، اس لیے شرکائے مجلس سے انہوں ووٹ دینے کی اپیل کی، یوں یہ مجلس اختتام پذیر ہوئی۔

ایسی ہی ایک مجلس تحریک انصاف کے انتخابی امیدوار جناب قادر بخش گبول کے ساتھ منعقد ہونا قرار پائی۔ یہ مجلس بھی جناب مرزا مقصود کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی، جس میں جناب قادر بخش گبول کے ہمراہ این اے 236 میں شکست سے دوچار ہونے والے امیدوار ڈاکٹر مسرور علی سیال بھی تشریف لائے۔ حسب سابق جناب مرزا مقصود نے بات چیت کا آغاز کیا۔ اور یہ باور کرایا کہ 25 جولائی 2018 کو تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر مسرور علی سیال اسٹیل ٹاؤن کے تمام پولنگ اسٹیشنز سے کامیاب ہوئے۔ ملازمین پاکستان اسٹیل نے اسی امید پر تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیا کہ تحریک انصاف حکومت کی تشکیل کے بعد اسٹیل مل کی بحالی اور اس کے سابق و حاضر ملازمین کی بد حالی دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی۔ لیکن ابھی تک اسٹیل مل کے حوالے حکومت کی طرف سے عملی اقدامات کا دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے۔

راقم نے بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی توجہ اس طرف دلوائی کہ عرصہ ڈیڑھ دو برس سے اسٹیل مل میں تحریک انصاف کی سی بی اے ہے اور صدر پاکستان جناب عارف علوی، وزیراعظم جناب عمران خان اور وزیر خزانہ جناب اسد عمر صاحب ڈیڑھ ایک سال میں ایک سے زائد مرتبہ اسٹیل مل کے ملازمین سے اظہار یکجہتی کرنے تشریف لا چکے ہیں، تمام مسائل ان کے علم میں ہیں۔ جب اسٹیل مل کا ایک عام ملازم بھی اس حقیقت سے آشنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خزانہ جناب اسد عمر ہوں گے اور وہ جناب عمران خان اور اسد عمر سے توقع لگائے بیٹھا تھا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر اسٹیل مل کے ملازمین سے کیے گئے وعدوں پر فوری عمل کریں گے، لیکن اب تک سوائے زبانی جمع خرچ کے عملی طور پر کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

تمام گزارشات اور شکایات سننے کے بعد ڈاکٹر مسرور سیال نے فرمایا کہ جب وزیر خزانہ اسد عمر سے ملاقات میں اسٹیل مل کے معاملات جلد حل کرنے کے لیے درخواست کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ وزارت سنبھالنے کے بعد سے بہت مصروف ہیں۔ ضمنی انتخاب سے قبل وہ کسی حکومتی شخصیت کا اسٹیل مل کے دورے کا بندوبست کریں گے، تاکہ حالات کا جائزہ لے کر وہ اسٹیل مل کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ تحریک انصاف کا وفد تو حاضرین مجلس سے سردار قادر بخش گبول کو ووٹ دینے کی درخواست کرکے روانہ ہو گیا۔ وفد کی روانگی سے جناب مرزا مقصود نے ڈاکٹر مسرور سیال کو مشورہ دیا کہ اگر مشیر تجارت اسٹیل مل کے ملازمین کے وفد سے ملاقات پر آمادہ ہو جائیں تو ملازمین کے شکوک و شبہات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسی کسی ملاقات کی کوشش کی جائے گی۔

10 اکتوبر کو مشیر تجارت، صنعت و پیداوار عبد الرزاق داؤد کا دورہ اسٹیل مل تجویز ہوا۔ 10 اکتوبر کو مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی آمد سے قبل اسٹیل مل میں خوب صفائی ستھرائی ہوئی اور سب عبد الرزاق داؤد کا انتظار کرتے رہے، لیکن مشیر تجارت، صنعت و پیداوار اسٹیل مل تشریف نہیں لائے۔

ایک اخباری خبر کے مطابق عبد الرزاق داؤد 10 اکتوبر کو کراچی تشریف لائے اور پی آئی ڈی سی میں اسٹیل مل کے اعلی افسران سے ملاقات کی۔ مشیر تجارت، صنعت و پیداوار نے اسٹیل مل کے افسران سے مل کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز مانگیں۔ خبر پڑھ کر ملازمین کی اکثریت سوچ میں پڑ گئی کہ اسٹیل مل کے مسائل کے حل کے لیے جو تجاویز وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر ( جو کہ گزشتہ دور حکومت میں صنعت و پیداوار کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔ ) مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت کو دیا کرتے تھے اور ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی، ریٹائرڈ ملازمین کے بقایا جات کی فوری ادائیگی، طبی سہولیات کی مکمل فراہمی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے، خود ان اقدامات پر عمل کرنے میں تامل کیوں برت رہے ہیں؟ جب کہ اسٹیل مل کی سی بی اے بھی انصاف لیبر یونین ہے۔

ملازمین پاکستان اسٹیل مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی اس طرح آمد پر سخت غم و غصے میں ہیں۔ دوسری طرف حلقے کی تازہ ترین انتخابی صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ( ن ) کے امیدوار پیپلز پارٹی کے امیدوار جناب ساجد جوکھیو کے حق میں دست بردار ہوگئے ہیں۔ یہ تو 14 اکتوبر کو ہی پتا چلے گا کہ ووٹرز جناب ساجد جوکھیو پر چوتھی دفعہ اعتماد کرتے ہیں یا جناب سردار قادر بخش گبول پر اعتماد کرکے ان کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

پی ایس 87 کے ووٹرز کی اکثریت کا بس یہی مطالبہ ہے کہ حلقے کے مسائل کے حل کے ساتھ اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی حالت زار پر فوری توجہ دی جائے۔ ملازمین کی تنخواہوں کی بر وقت ادائیگی، طبی سہولیات کی مکمل فراہمی اور 2013 سے لے کر اب تک ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی مکمل ادائیگی حکومت جلد از جلد کرے، کیوں کہ اس کے لیے کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ ملازمین پاکستان اسٹیل کی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ سے یہی اپیل ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل ملازمین پاکستان اسٹیل سے کیے گئے، اپنے تمام وعدوں کی پاس داری کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).