قوم کے مسائل ایک کراری تقریر کی مار ہیں


ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

شاعری کی ایک بہترین بات یہ بھی ہے کہ جو شعر غالب نے پونے دو سو سال پہلے اپنی گرل فرینڈ کے لئے کہا تھا وہ آج ہم اپنی حکومت کے لئے دہرا رہے ہیں۔

خیر تاریخ تو اپنے آپ کو دہراتی ہے بس طریقے بدل جاتے ہیں۔ پہلے بلی کو نو سو چوہے کھانے کے بعد حج کرنا پڑتا تھا۔ اب ایک سندر اور ٹکاؤ تقریر سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔

پاکستان میں ایک دائمی فیشن ہے کہ دھواں دھار تقریر سے عوام کو متاثر کرلیا جاتا ہے۔ اور اس متاثرہ قوم کا المیہ دیکھیں کہ دودھ کی جلی چھاچھ پر چھاچھ پئے ٹن رہتی ہے۔ اللہ جانے اگلے پانچ سال میں کتنی تقریریں سن کر سر دھنتے ہوئے لوگ اپنی آہ اس واہ کے اندر دفن کرتے جائیں گے۔

پرانا پاکستان تو جب سے بنا تھا اس وقت سے ہی نازک دور میں تھا لیکن نیا پاکستان بنتے ہی عوام سمجھنے لگے تھے کہ بس آنا“ فانا“ اب ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔ کچھ بڑے شہروں کے لوگ تو الیکشن کے اگلے دن ہی یہ سوچ کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تھے کہ صبح باہر نکلیں گے تو ہر دیوار پر عامل بنگالی اور مردانہ کمزوریوں کے اشتہارات کے بجائے ”یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا“ لکھا نظر آئے گا۔ لیکن پھر لوگ ذرا حواسوں میں آئے کہ میاں دو دن میں یہاں جنگل ہرے تو نہیں ہو سکتے، دو دن میں جنگلوں میں بس آگ لگ سکتی ہے۔

تھوڑا ہی وقت اس ادھیڑ بن میں گزرا تھا کہ ٹی وی پر ایک تقریر آئی جو خان صاحب نے بحیثیت نئے وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے طور پر کی تھی۔ اور کتنے ہی لوگ جو خان صاحب کے ناقد تھے وہ دیکھتے دیکھتے ان کے گرویدہ ہو گئے اور کئی دن اس تقریر اور خان صاحب کو چڑھتے سورج کی حیثیت حاصل رہی۔ جس میں انھوں نے بالخصوص خارجہ پالیسی اور عوام کا چرایا ہوا پیسا واپس لانے والی امید کی کرن روشن کی تھی اور جسے پاکستانی تاریخ کی بہترین وزیراعظم کی تقریر کہہ دیا گیا۔

لوگ اس کے بعد سے نئے وزیراعظم کی تقریروں کو جادو کی چھڑی سمجھنے لگے ہیں کہ یہاں منہ سے الفاظ نکلے اور یہاں چھوٹی چھوٹی سی ہزاروں رنگ برنگی پریاں پورے ملک میں اڑتی ہوئی جائینگی اور آن کی آن میں لوگوں کے لئے خوشحالی بکھر جائے گی۔

خیر ابھی تک تو پریاں تشریف نہیں لائی ہیں لیکن نئے پاکستان میں ایک اور خوشگوار بات یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم عوام سے تعاون کی اپیل کرنے سے پیشتر ہمیں کوئی ریلیف دیتے ہیں۔ یوں نہیں کہ پہلے پیروں تلے قالین کھینچ لو پھر آسروں کا ترپال دے کر کہو کہ ”اور کوئی حکم ہمارے لائق؟ “۔

جیسے حال ہی میں اس صابر شاکر قوم کو لاکھوں پبلک ٹوائلٹس کی وعید دی گئی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ صرف بیس بائیس روپے سی این جی پر بڑھا کر لاکھوں پبلک ٹوائلٹس کی تعمیر کا سودا برا تو نہیں ہے؟

اور رہی بات روز مرہ کی اشیاء میں مہنگائی کی تو لاکھوں نوکریاں اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت پچاس لاکھ گھر کے پراجیکٹس کے عزم کے بعد تو عوام کو شرم آنی چاہئیے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے۔ چلیں پھر بھی کچھ عقل سے عاری لوگ شکایتکیے جائیں تو جواب شکوہ کی شکل میں ایک اور فیگر اور فیکٹس سے بھر پور حالیہ تقریر ہمارے وزیر اعظم کے پاس تیار رکھی تھی کہ وہ خط لکھ رکھتے ہیں قاصد کے آتے آتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں جو ہوگا مہنگائی پر عوام کا جواب۔ اسی لئے انھوں نے عوام کے سامنے پچھلی حکومت کا کچا چٹھا کھول کھال دیا کہ بھائی یہ تو پچھلی حکومت میں آپ پاکستانیوں پر قرضے کا اتنا بھاری بوجھ ڈال کر گئے ہیں کہ اگر ٹیکس دے کر آپ لوگوں نے اسے نہیں اتارا تو یہ ملک ہی پٹری سے اتر جائے گا۔ بہر حال وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے کہ اس مشکل وقت سے وہ ملک کو بخیر و عافیت نکال لیں گے۔ یاد رہے یہ وہی وعدہ ہے جو غالب سے شروع کے مضمون میں کیا گیا ہے۔

خان صاحب کے حامیوں کو تو یہ بات دل پہ لگی اور باقی لوگوں کو سر سے لگی تو پاؤں پہ بجھی کیونکہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ملک کی حالت تو پچھلے کرپٹ حکمرانوں کے لوٹے ہوئے پیسے سے ٹھیک ہونی تھی تو اب یہ پلان کیوں تبدیل ہو گیا؟ لیکن اب آپ یہاں ہمارے دور اندیش وزیر اعظم کی ٹیلی پیتھی دیکھئے کہ وہ جانتے تھے کچھ کم ظرف لوگ ایسا کہیں گے اسے لئے انھوں نے اس کا جواب بھی اسی تقریر میں پہلے ہی دے دیا کہ اگر آپ کے گھر میں چوری ہو جائے تو آپ وقتی طور پر بہت پریشان ہوجائیں گے اور تھوڑا وقت تک مشکل حالات کا سامنا کریں گے۔ تو بس آپ نے اس مشکل وقت میں ثابت قدم رہنا ہے۔

بس یہی وجہ ہے کہ ہمیں خان صاحب کی تقریر ہمیشہ ہی متاثر کرتی ہے۔ کچھ دیر کے لئے تو یقین بھی آ جاتا ہے۔ لیکن مجھے اب اگلی تقریر میں ایک نئے پراجیکٹ کی تعمیر کے حوالے سے خوشخبری کی امید ہے۔ وہ پراجیکٹ ”دیوار گریہ“ کے نام سے فقط ایک دیوار پر مشتمل ہو اور پچاس لاکھ گھر بنانے سے پہلے وہ دیوار بنائی جائے جہاں لوگ وزیر اعظم کی دل گداز تقریروں کو سننے اور مہنگائی کے دل خراش تجربات سے گزرنے کے بعد اپنا اپنا سر مارنے آیا کریں گے۔
اللہ تعالی ہمیں وزیر اعظم سمیت اس مشکل وقت سے اسی طرح اپنی حالت پر ہنستے ہنستے گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).