پولیس اور مجسٹریٹوں کی جنگ اور ریل پر ڈاکہ


اس واقعہ کو تمام ہندوستان میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہوئی، کیونکہ وائسرائے اور مرکزی گورنمنٹ و پنجاب گورنمنٹ کے تمام اعلیٰ افسر ریل موٹر کے ذریعہ ہی شملہ سے کالکا آیا کرتے۔ پولیس کی ایک بہت بڑی جمعیت جس میں کئی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس شامل تھے، اس واقعہ کی تفتیش پر مقرر ہوئے۔ تحقیقات اور مقدمہ کی تفتیش کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ پولیس کی تھیوری یہ تھی، کہ اس ڈاکہ کی تمام ذمہ داری یا تو کمیونسٹوں پر ہے، یا کانگرسیوں پر، جو اس زمانہ میں ” انقلاب زندہ باد“ کے نعرے بلند کرتے تھے۔

شملہ، کالکا اور انبالہ کے علاقہ کے قریب قریب تمام سرکردہ کیمونسٹ اور کا نگر یسی لیڈر گرفتار کر لئے۔ ان پر بہت تشدد کیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں میں شملہ کے ایک بوڑھے کانگرسی لالہ دیوان چند بھی تھے، جن کو گرفتار کر کے جالندھر لے جایا گیا، جہاں کہ ان کا کوئی ہمدرد یا واقف نہ تھا۔ اس تشدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض پولٹیکل ورکرز نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ مجسٹریٹوں کے سامنے ان سے اقراری بیان لئے گئے۔ سرکاری گواہ تیار کر کے ان کو معافی دی گئی۔ ان کے بیانات مجسٹریٹوں سے تصدیق کرالئے گئے۔

جب اس مقدمہ کی تکمیل ہو گئی، اقراری ملزموں، سرکاری گواہوں اور چشم دید گواہوں کو بیانات رٹا دیے گئے، اور مقدمہ کے عدالت میں جانے میں صرف دو ہفتہ باقی تھے، کہ بٹھنڈہ کے ایک وکیل شام کو سیر کے لئے شہر کی طرف گئے۔ بٹھنڈہ اور شہر کے درمیا ن ان وکیل صاحب کو ایک ڈاکو ملا، اور اس ڈاکو نے وکیل صاحب کو دھمکی دے کر اور پستول دکھا کر ان کا جیب خالی کرا لیا۔ ڈاکو وکیل سے جیب خالی کرانے کے بعد بٹھنڈہ شہر کی طرف چل پڑا، اور وکیل صاحب بھی آہستہ آہستہ اس ڈاکو کے پیچھے چلے آئے، تاکہ معلوم ہو، کہ یہ کہاں رہتا ہے۔ ڈاکو بٹھنڈہ کی ایک سرائے کے ایک کوارٹر میں داخل ہوا، تو وکیل صاحب فوراً تھانہ پہنچے۔ پولیس کے افسروں کو تمام واقعہ بیان کیا، اور بتایا، کہ ڈاکو فلاں کوارٹر میں داخل ہوا ہے پولیس کے افسروں نے جب یہ سنا، تو یہ اپنی بندوقیں لے کر اس سرائے کے کوارٹر میں پہنچے۔

دروازہ کھٹکھٹایا گیا، تو اندر سے آواز آئی:۔
” کون ہے؟ “

پولیس کے افسروں نے کوئی جواب نہ دیا، اور دروازہ پھر کھٹکھٹا یا، تو اندر سے ڈاکو نے دروازہ کے سوراخوں میں دیکھا، کہ دروازہ پر مسلح پولیس کھڑی ہے۔ ڈاکو نے یہ دیکھ کر اندر سے اپنی بندوق کے ساتھ فائر کیا۔ اس کے جواب میں باہر سے فائر ہوئے۔ چند منٹ تک یہ فائرنگ دونوں طرف سے جاری رہی، تو اندر سے ایک عورت نے آواز دی، کہ اندر سے فائر کرنے والا پولیس کی گولی سے ہلاک ہو چکا ہے، اب فائرنگ بند کر دی جائے۔ اس عورت کے یہ کہنے پر فائرنگ بند ہوئی، اور عورت سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا۔

عورت نے دروازہ کھولا، تو ڈاکو مر چکا تھا، اور کوارٹر میں صرف وہ عورت (ڈاکو کی بیوی) موجود تھی۔ پولیس نے ڈاکو کی لاش پر قبضہ کیا، اور عورت گرفتار ہوئی، تو عورت نے اپنے شوہر کی ڈاکہ زنیوں کے پچھلے تمام واقعات بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا، کہ اس کے شوہر کے بھائی، یعنی اس کے دیور نے کالکا کے قریب ریل موٹر پر ڈاکہ ڈالا تھا، اور دونوں نے اس ڈاکہ میں روپیہ کے علاوہ فلاں فلاں چیز حاصل کی۔ اس کا دیور آج کل اپنے گھر میانوالی میں ہے، کیونکہ یہ میانوالی کے رہنے والے ہیں۔

اس بیان کے بعد پولیس کے افسروں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس میانوالی کو ملزم کو گرفتار کرنے اور ملزم کے گھر کی تلاشی لینے کے لئے تار دیا۔ ملزم گرفتار ہوا، اور تلاشی میں اس تمام سامان کے علاوہ پولیس کو رولڈ گولڈ کی وہ پنسل بھی ملی، جو ریل موٹر میں سوار ایک یورپین خاتون سے ان ڈاکوؤں نے حاصل کی تھی۔ چنانچہ گرفتاری کے بعد مرنے والے ڈاکو کے ایک بھائی پر قتل اور ڈاکہ کا مقدمہ قائم ہوا۔ ریل موٹر میں جو لوگ سوار تھے، ا ن کی شہادتیں ہوئیں۔ لوٹے ہوئے سامان کی شناخت کی گئی۔ پنسل والی یورپین خاتون کی بھی شہادت ہوئی، اور ملزم کو پھانسی کی سزا کا حکم ہوا، جس کی اپیل ہائیکورٹ میں بھی خارج ہوئی، اور ملزم کو انبالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔

اس وقت راقم الحروف انبالہ جیل میں نظر بند تھا، جب کہ اس کو پھانسی ہوئی۔ یہ تمام واقعات راقم الحروف کو خود ملزم نے اور نظر بندی سے رہائی کے بعد ایک پولیس افسر نے بتائے، جو کالکا کے ڈاکہ والے مقدمہ کی تفتیش میں شامل تھا۔ یعنی اس مقدمہ میں ” تھرڈ ڈگری“ یعنی تشدد کی ” برکات“ کے باعث کئی بے گناہ کانگرسی اور کیمونسٹ ورکرز ملزموں کے کٹہرے میں جانے والے تھے، جن کے اقراری بیان تشدد کے ذریعہ پولیس حاصل کر چکی تھی۔ اگر بٹھنڈہ کا واقعہ نہ ہوتا، تو نہ معلوم کس کس ورکر کو پھانسی ملتی۔ کون کون سرکاری گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوتا، اور کون کون مقدمہ کو ثابت کرنے کے لئے عدالت میں حلفیہ بیان دیتا، اور نہیں کہا جا سکتا، کہ اصل حالات ظاہر ہونے کے بعد ان اقراری بیانات کا کیا ہوتا، جو بے گنا ہوں نے تشدد سے مجبور ہو کر مجسٹریٹوں کے سامنے دیے تھے، اور اقرار کیا تھا، کہ یہ ڈاکہ انہوں نے ڈالا تھا۔

کتاب ”سَیف و قلم“ سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon