پختونخوا کا معلومات تک رسائی کا قانون اور ضلع ملاکنڈ


جب سے ریاست کی ابتداء ہوئی ہے ریاست کے حکمران اپنے حکمرانی کو دوام دینے اور حکومتی امور چلانے کے لئے ضابطے اور قوانین بناتے رہےہیں۔ ریاست کی شکل میں تبدیلی کے ساتھ قوانین بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ حکمرانوں نے لوگوں کو سہولتیں دینے اور ان کے زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے قوانین بنانے شروع کیے اور آجکل وہ ریاست کامیاب تصور کیا جاتا ہے جو اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لئے قانون سازی کرتی ہے۔ جدید جمہوری نظام کی بنیاد قانون کی بالادستی پر ہے۔ جمہوری نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے پارلیمنٹ کووہ قوانین بنانے چاہیے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں پر پورا اتریں اور جو سماجی اور معاشی ترقی کے لئے پر امن فضا اور اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) کو یقینی بنائے۔

خیبر پختونخواہ کے اسمبلی نے اکتوبر 2013ء میں سرکاری اداروں میں معلومات تک رسائی (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ آر ٹی آئی) منظور کیا۔ جو مزکورہ بالا اصولوں پر پورا اترتا ہے جس کا مقصد پاکستان کے آئین کے ارٹیکل 19 الف کے تحت صوبہ کے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں، تنظیموں اور غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز کو اپنے معاملات کے بارے میں معلومات شہریوں کو فراہم کرنا ہے۔

اس قانون کے تحت مزکورہ بالا ہر ادارے کی ذمہ داری ہوگی۔ کہ اپنے تمام ریکارڈ کی ذمہ دارانہ طورپر دیکھ بھال کریں۔ اپنے قوانین، قواعد و ضوابط، اعلامیے اور احکامات جو کے پی کے میں قانون کی حثیت رکھتے ہو عوام کے لئے قابل رسائی بنائیں۔ اس قانون کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران اور ملازمین اپنے اختیارات، تنخواہوں اور دوسرے مراعات اور اخراجات سے عوام کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔

ہر ادارہ اس کا پابند ہے کہ وہ ادارے کے معلومات کے حصول کے لئے دی جانے والے درخواستوں کو نمٹانے کا طریقہ کار وضع کریں اور درخواستوں پر عمل درامد کروانے کے لئے ایک پبلک انفارمیشن آفیسر کی نامزدگی کریں۔ انفارمیشن آفیسر درخواست کے دس دن بعد درخواست گزار کو تحریری طورپر آگاہ کرنے کا پابند ہے کہ اس کا درخواست منظور یا مسترد ہو چکا ہے۔ ہر سال دیے ہوئے درخواستوں پر کارروائی کرنے کی رپورٹ تیار کرکے سپیکر صوبائی اسمبلی اور انفارمیشن کمیشن کو ارسال کرنا ہوگی۔ درخواست گزار معلومات متعین شدہ مدت میں حاصل نہ ہونے کی صورت میں انفارمیشن کمیشن میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔ جو اس قانون کے تحت متعلقہ ادارے سے درخواست پر عمل در امد کروانے کے لئے اپنا آئینی اختیارات استعمال کریگا۔

معلومات نہ دینے کی صورت میں کمیشن ہر اس آفیسر یا ملازم جس نے معلومات کو مہیا کرنے کا راستہ دانستہ طورپر روکا ہو یا تاخیری حربوں کا مرتکب ہوا ہو، کو 250 روپے فی یوم کے حساب سے جرمانہ کر سکتاہے جس کی آخری حد 25000 روپے ہیں۔ کمیشن کو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے اس فیصلہ کو عدالت میں رجسٹر کریں اور فیصلہ نہ ماننے کی صورت میں وہ آفیسر یا ملازم توہین عدالت کا مرتکب تصور کیا جائے گا۔

آج تک انفارمیشن کمیشن کو بارہ ہزار چار سو پینتیس درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں چھ ہزار نو سو چھیاسی درخواستوں کو متعلقہ محکموں اور درخواست گزار کی باہمی رضامندی سے حل کر دیے گئے ہیں اورپانچ ہزار ایک سو آٹھ نے شکایات کی شکل اختیار کی۔ جس میں چارہزارسات سو سینتیس شکایات کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تین سو اکہتر کا فیصلہ ابھی تک باقی ہے۔

یہ درخواستیں کے پی کی کے تمام اضلاع میں مختلف اداروں سے معینہ مدت میں معلومات حاصل نہ ہونے کی صورت میں دائر کی گئی ہیں اور ان درخواستوں میں کے پی کے ہر ضلع کے اداروں کے خلاف شکایات خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف ملاکنڈ ایک ایسا ضلع ہے جہاں صرف دو شکایات 2016ء میں موصول ہوئی ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔

ایک یہ کہ ضلع ملاکنڈ میں تمام اداروں کی کاکردگی شاندار اور عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ سوشل میڈیا، اخبارات اور لوگوں کے نجی محفلوں میں ضلع کے اداروں کے خلاف زبانی شکایات اس امکان کی نفی کرتی ہے کہ اداروں کے کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں۔

دوسری ممکنہ وجہ یہ کہ ان کا اعتماد قانون سے اٹھ چکا ہے اور قانون کا استعمال وہ وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہ وجہ بھی ملاکنڈ کے سیاسی تاریخ، لوگوں کے سیاسی اور سماجی بیداری کے حوالے سے غلط ہے۔ ضلعی عدالتوں میں اپنے سول اور خاندانی رائٹس کے لئے دو ہزار چار سو نو درخواستوں کا داخل کرنا ان کا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتماد کا اظہار ہے۔

تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ ملاکنڈ کے باشندے اس قانون سے لاعلم ہیں اور اس کے استعمال سے بے خبر ہیں۔ مجھے یہ وجہ ٹھیک لگ رہا ہے۔ مجھے ملاکنڈ کے باشندوں کے حق پرستی پر پورا یقین ہے۔ اگر ان کو اس قانون کا ذرا برابر آگاہی ہوتی تو وہ ضرور اس کو استعمال کرتے۔

ہم نے اس قانون کے چیدہ چیدہ خصو صیات کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے لوگوں کی اس کم علمی کو دور کیا جاسکے۔

جمہوری نظام عوام کے شمولیت کے بغیر ڈلیور نہیں کرسکتا۔ ہر وہ قانون لوگوں کے مسائل اورتنازعات حل کرسکتے ہیں جس پر لوگوں کا اعتماد ہو اور اس کو مثبت طریقے سے استعمال کریں۔
ملاکنڈ میں جو مسائل ہیں اس کے نشاندہی آپ کو کرنا ہے۔ جنید اکبر، شکیل خان، سید احمد علی شاہ باچا، منصور غازی اور کرنل ابرار پر الہام نہیں ہو گا کہ فلاں ادارے میں فلاں شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اچھی حکمرانی کے لئے تمام سیاسی نے متفقہ طور پر معلومات تک رسائی کا قانون 2013 ء پاس کیا ہے۔ اس کو استعمال کرکے ملاکنڈ میں گڈ گورننس کو یقینی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).