سرکاری کوارٹر، مفت کا چندن


وطن عزیز میں ہمیشہ سے ہی ہر سرکاری چیز ویسے تو عوام کے لئے مال مفت رہی ہی ہے اور مثل مشہور ہے، مال مفت دل بے رحم۔ ہمارا دل مال مفت پر بہت بے رحم ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے قومی مزاج کے حوالے سے سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اب ذرا غور سے اس شہر کراچی کو دیکھئے اور تحقیق کیجئے کہ کہاں کہاں سرکاری کوارٹرز موجود ہیں اور لوگوں نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے۔ جہانگیر روڈ پر موجود آبادی کا ایک سرسری دورہ کیجئے۔ ذرا تحقیق کیجئے کہ یہ مقامات کیا تھے اور ان میں کون لوگ رہے ہیں؟ معلوم ہو گا کہ یہ عمارتیں سرکاری ملازمین کے کوارٹرز تھے جو انہیں دوران ملازمت ملتے۔ 80کی دہائی میں ان کوارٹرز پر ان کے رہائشیوں نے قبضہ جما لیا۔ پھر وہ رٹائر ہوئے، مر گئے مگر ان کے اہل خانہ ان گھروں سے چپکے رہے۔ اب ان کوارٹرز کے ارد گرد بالکل کسی کچی آبادی کی طرح احاطہ گھیر گھیر کر کمرے نکال لئے گئے ہیں اور کبھی کے سرکاری ملازمین کی دوسری یا تیسری نسل رہ رہی ہے۔

جامعہ کراچی کی اساتذہ کی کالونی اور دفتری عملے کی کالونی اس کے احاطے کے اندر ہے۔ مگر یہاں بھی صورت حال کچھ زیادہ خوش آئند نہیں۔ دفتری عملے کی کالونی مکمل طور پر جہانگیر روڈ بن چکی۔ ایسے کئی افراد وہاں مقیم ہیں جن کے باپ یا دادا میں سے کوئی جامعہ کا ملازم تھا اور وہ اسی کوارٹر میں یا اس کے ارد گرد زمین گھیر کر گھر بنا کر رہ رہے ہیں۔ پھر ایسے ملازمین بھی ہیں جو خود تو رٹائر نہیں ہوئے مگر اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اب یہ کوارٹر کبھی نہی چھوڑیں گے۔ کئی لوگوں نے ارد گرد کی خالی پڑی زمین پر قبضہ کر کے کچھ کمرے بنا لئے ہیں جو وہ کرائے پر چلا رہے ہیں۔

ایک سکہ بند(Authentic) ڈاکو ہے جو اسی کالونی میں اپنے بہنوئی کے ساتھ رہتا ہے۔ ایسی مثالیں کئی ہیں۔ جب 2017ء میں انصار الشریعہ کے معاملات سامنے آئے تھے تو ذرائع ابلاغ پر اس کالونی کے حوالے سے کچھ باتیں آئی تھیں مگر پھر بات دبا دی گئی۔ پھر آئیے ٹیچر کالونی کی طرف۔ تو یہ کالونی صرف اساتذہ کے لئے ہے مگر یہاں پر کئی مکانات پر دو نجی بینک کے منیجروں کا قبضہ ہے۔ پھر کئی رٹائرڈ پروفیسرز اور لیکچررز ابھی تک بیٹھے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے ”وائس چانسلر“ نے دو مکانات پر قبضہ جما رکھا ہے قبضہ بھی معمولی نہیں چار دیواری کھینچ کے، یہ سیدھا سادا might is right کا معاملہ ہے۔

جامعہ کے معاملات جس نہج پر چل رہے ہیں اس میں یہ طے ہے کہ یہ بھی جلد یا کچھ سال بعد جہانگیر روڈ ہی بن جائے گی۔ آئی بی اے جو 25 سال سے جامعہ سے الگ ہو چکا، اس نے بھی کئی مکانات پر قبضہ جما کر انہیں اپنی کالونی قرار دے دیا ہے۔ ایف سی ایریا، ایف بی ایریا، ریلوے کالونی، پولیس لائن، ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کالونی، گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹرز کے سامنے بنے سرکاری ملازمین کے کوارٹرز اور فلیٹ الغرض جہاں دیکھئے، بس وہی قبضہ، وہی کچی آبادی کی طرح دیوار بڑھا کر کمرے نکالنا، وہی بدہیت روش اور وہی غلیظ انداز۔ مگر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ ہے کیا؟

ہم ایسے کیوں ہیں؟ آخر یہ تمام افراد جرائم پیشہ تو ہر گز نہیں، یہ تو وہ گروہ ہیں جو معاشرے کے مثبت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر آخر یہ کیوں اپنی فطرت میں اس نوع کا ٹیڑھ رکھتے ہیں؟
دراصل ہمارے وطن میں کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت اخلاقیات اور مذہب کو ایک کُل (Totality) کے بجائے دو الگ الگ چیزیں بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ہر قسم کی بداخلاقی اور گراوٹ کا مظاہرہ کر کے بھی خود کو مذہبی انسان ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ مذہب کے معاملات وہ پورے کر رہے ہیں اور اخلاقیات تو ایک دوسرا ہی معاملہ ہے تو اس میں وہ کچے بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس صورت حال کی عملی شکل یہ کہ ایک نیک اور متقی حضرت جو فاتحہ کا حلوہ نہیں کھاتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بتوں کے چڑھاوے کی مانند ہے مگر یہی صاحب سود کی کمائی پر جی رہے ہیں۔

اس معاشرے میں لوگ بڑے فخر سے اپنا مذہب اور مسلک بتاتے ہیں مگر یہی لوگ جب موقع ملے تو جھوٹ، رشوت، غبن اور ہر نوع کے اخلاقی سماجی جرم میں ملوث پائے جا سکتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے پاس بھی کچھ تاویلات ہیں، مثلاً یہ کہ ان کو چھت فراہم کرنا حکومت کا فریضہ ہے، سوال یہ ہے کہ محنت کر کے اپنی چھت بنانا ان کا فریضہ کیوں نہیں؟ پھر ایک دلیل یہ ہے کہ یہ ملک اسلامی ریاست نہیں، اس لئے ”دار الحرب‘‘ ہے اور اس لئے یہاں لوٹ مار اور قبضہ جائز ہے۔

سبحان اللہ! اگر یہ ملک دار الحرب ہے تو آپ اس کی حکومت کے ملازم اور اہلکار کیوں بنے؟
اگر یہ ملک دار الحرب ہے تو آپ یوں سرکاری گھروں پر قبضہ کر کے اسے دارالسلام بنا رہے ہیں؟
اور کیا کسی اسلامی کام کی ابتداء کسی گناہ سے ممکن ہے؟

ہمارے وطن میں بدعنوانی کو ہمیشہ سے پیدائشی حق سمجھا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے لائیو ٹی وی پر یہ بات کہی تھی کہ ” کرپشن میں ہمیں بھی حصہ چاہیے، اس پر ہمارا بھی حق ہے“۔ پھر جماعتوں میں اس بات پر ٹکراؤ ہے کہ فلاں جماعت کے کارکن اتنی بدعنوانی کر رہے ہیں تو ہمارا بھی حق ہے کہ ہم اتنی بدعنوانی کریں۔ سرکاری اداروں میں سیاسی جماعتوں کے بہت سے کارکن بھرتی ہیں اور اس قبضہ کلچر میں وہی سب سے پیش پیش ہیں اور ان سیاسی کارکنوں کو کوئی ان کوارٹرز سے نکالنے کی جرأت کر بھی کب سکتا ہے؟ پھر اگر نکالا جائے تو اس پر لسانی عصبیت بھڑکائی جاتی ہے، زبان اور قومیت کی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی بھیانک اور غلیظ فضا ہے کہ جس کا کوئی آسان تدارک ممکن ہی نہیں۔

بڑی حد تک سارا سماج ہی اپنی فطرت میں ڈاکو بن چکا ہے۔ لوگ محض کسی زمینی قوت سے ڈر کر تو کسی برے کام سے رک سکتے ہیں مگر خوف خدا اب کبھی لوگوں کو اس نوع کے افعال سے نہیں روکتا۔ اس لئے کہ اخلاقیات ا ب لوگوں کے لئے مذہب سے باہر کی کوئی شے ہے اور مذہب اب محض ایک لیبل ہے اور جب اخلاقیات کو زندگی سے بالکل نکال دیا جائے گا تو زندگی کیسی ہو گی؟
عملی شکل دیکھنی ہو تو جہانگیر روڈ اور جامعہ کراچی کے آفس اسٹاف کوارٹرز دیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).