جب قرض کے گھروں نے امریکی معیشت ڈبو دی


امریکا میں 2007 میں شدید اقتصادی بحران آیا، ابتدا میں لگا کہ وقتی کسادبازاری یا مندی ہے پر دیکھتے ہی دیکھتے عظیم معاشی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو رہی۔ وجہ کیا بنی، پاکستان کے اکثر لوگوں کو حیرت ہو گی کہ طوفان تھما تو وجہ قرض پر لئے گئے گھر نکلے۔ امریکی اصطلاح اس کے لئے ہاؤسنگ ببل (بمعنی بلبلہ) استعمال ہوتی ہے، ویسے غبارہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔

آسان الفاظ میں سمجھایا جائے تو اس کو یوں سمجھیں کہ سرمایا دارانہ نظام میں ہر بالغ فرد معاشرے کی ایک خودمختار اکائی گنا جاتا ہے، جس کا ایک کریڈٹ سکور ہوتا ہے، جو قرضہ لینے کے لئے سب سے اہم گنا جاتا ہے، دیگر ضروری اشیا میں دیگر اشیا دیکھی جاتی ہیں جیسا یہ کہ پہلے کتنے قرضے لے رکھے ہیں، آمدنی اور قرضوں /اخراجات کا تناسب کیسا ہے، پرانے قرضہ جات کی ادائیگیوں میں تاخیر کبھی ہوئی ہو یا کوئی ادائیگی اگر کبھی نہ کی ہو وغیرہ۔ نیز یہ کہ وہاں ہر بالغ فرد اب وہ افراد جن کا کریڈٹ سکور کم ہو، یا آمدنی اور اخراجات کا تناسب ایسا ہے کہ اخراجات زیادہ ہیں ہے۔

ایسے افراد کو جو قرضہ دیا جائے گا اسے سب پرائم مورٹ گیج کہا جاتا ہے یا دیسی زبان میں ایک خطرناک قرضہ جس کے ڈوبنے کے امکانات اوسط سے زیادہ ہیں۔ اگر ان کم آمدن والے افراد کو قسطوں میں گھر تھما دیے جائیں، تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوں گے کہ کسی وجہ سے ان کی آمدنی کم ہو گئی، نوکری چلی گئی یا کوئی ایسا سلسلہ نہ بن سکا کہ وہ بوجوہ ماہانہ قسط ادا نہ کر پائے گا، ”ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ کے مصداق قر ض بھی ڈوبے گا، خود بھی ڈوبے گا اور معیشیت بھی ڈبوئے گا۔

قسط وار گھر ہو یا کوئی اور چیز ہو، اس کا اہم اثراس آمدن پر ہوتا ہے، جسے ڈسپوزیبل انکم یا وہ آمدنی جو آپ کے پاس تمام قسطیں، یوٹیلیٹی بلز کی ادایئگی اور دیگر ماہانہ اخرجات جیسے بچوں کی فیس وغیرہ کے بعد بچ جاتی ہو، جسے آپ دیگر جگہوں پر خرچ کر سکتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا کہ پہلی فیز میں ان لوگوں نے بھی بادشاہ بن کر قرضوں پر گھر لے لئے جن کی ڈسپوزیبل انکم بہت کم تھی، قرضہ سب کو مل رہا تھا، جو گروس آمدنی سے اخراجات منہا کر کے آخر میں نیٹ ڈسپوزیبل انکم تھی، اس کا ریشو 77 فیصد(77٪) سے بڑھ کر 125٪۔ 120٪ فیصد تک چلا گیا۔

اب ہوا کچھ یوں کہ اس صدی کی پہلی دہائی، خصوصاً 2004۔ 2006 کے درمیان یہ خطرناک قرضے آٹھ (8)فیصد سے بڑھ کر (20)بیس فیصد پر چلے گئے اور ان کا حجم 7 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو گیا۔ اور دوسرے مرحلے میں قیمتیں دھڑام سے نیچے آ گریں، اب صورت حال یوں بنی کہ پرانا قرضہ ری فائنانس کرانے جاؤ تو انکار ہونا شروع ہو گیا، نتیجہ کچھ یہ نکلا کہ امریکا جیسی تگڑی معیشت صرف ان رسکی قرضے کے گھروں کے بل بوتے دھبڑدھوس ہو گئی، تاریخ ٹرمپ کے مطابق یہ دھبڑ دوس کا لفظ امریکا میں بھٹکتے ایسے ہی ایک نیک دل پاکستانی نے قرضے کا برگر کھاتے اسی سوچ میں ایجاد کیا تھا۔

بہرحال یہ ایک بظاہر غیر اہم سا کام ایسا ثابت ہوا کہ ریاست امریکا کی اپنی کریڈٹ ریٹنگز گر گئیں۔ ایک کروڑ نوکریاں نصف جس کے 50 لاکھ گھر ہوتے ہیں، ختم ہو گئیں، بہت سے قدرتی انصاف پسند لوگ پاکستان کا ویزا لگوا کر نکل گئے کہ جہاں نوکری کرتے تھے وہ خود نوکری کی تلاش میں تھے۔ محقق کے بقول اس وقت پاکستان کا کپتان، ایک کپتان ہوتا تو آدھے گورے پاکستانی ایمبیسی کے باہر ویزوں کی قطار میں لگے ہوتے یا گوریاں ساتھ لا کر قطار باٰئی پاس کر رہے ہوتے، بہرکیف یہ گھروں سے پھیلا چکر ایسا پھیلا کہ پہلے ریاست ہائے متحدہ اور پھر باقی دنیا بھی اس کا شکار ہو گئی، صرف امریکی گھروں کی قیمتوں کے نقصان کا تخمینہ 130 کھرب ڈالر(ایک اعشاریہ تین نیل) تک لگایا گیا۔ ۔

یہ ایک ایسا ہمہ جہت مسئلہ ہے کہ ابھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ امریکہ میں عام گھر کے قرض کی شرح 4٪ ہے اور اس والے خطرناک قرض کا ریٹ 8٪۔ 10٪ ہے، جبکہ پاکستان میں اگر آپ کی آمدنی اورکریڈٹ سکور اچھا بھی ہو تو شاید یہ شرح ٪25۔ ٪35 تک ہو گی جس کی ایک بڑی وجہ افراط زر اور دوسری ایسے ہی چند عظیم معیشت دان ہیں، زیادہ بقراط بننے کی ضرورت ہی نہیں یہ سمجھنے کے لئے کہ اس کا انجام کیا ہونا چاہیے۔

سیمنٹ اور ریت بجری کی قیمت کے اضافے کو بھی اگر نہ گنا جائے تو بھی کیا ممکنہ ناکامی کی صورت میں اس کا اثر باقی ہاوٰسنگ مارکیٹ کو بٹھا نہیں دے گا؟ اس تناظر میں یہ اندازہ قاری پر چھوڑ دینا بہترہے کہ اگر ایسا ہی کام کچھ فطین باقاعدہ پالیسی کے طور پر پاکستان جیسے ملک میں کرنے جا رہے ہوں، جہاں کے ضمن میں میر کہہ گئے

فصل ہونے ابھی نہیں پائی
پیشگی سب سے قرض لے کھائی

ارض پاک میں قرضہ لینے کے بعد بندہ وصولی جیسے کرتا ہے، وہ اگر امریکیوں کوتب پتا چل جاتا تو امریکا کو تالا لگ چکا ہوتا اور وہ تالا بھی چین سے قرض لے کر ہی منگوانا پڑتا۔ یہاں تو قرض خواہ قرض وصول کرنے جائے تو پہلے اچھی خاصی ریکی کرنا پڑتی ہے، اور تو اور قرضدار کے گھر سے کوئی برقع پوش نکلے، اس کے چپل تک بغور دیکھنا پڑتے ہیں، کہ بی بی شمائلہ کے برقعے میں بابو شمائل اپنی مونچھیں دبا کے نہ نکل رہے ہوں۔

خدا ہمارے ان معاشی بزرجمہروں کو ہدایت دے، جو اس غبارے کو خود ہی پھلا کر داد طلب نظروں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور ایک بہت ہی عظیم دانشور جو یہ ثابت کرتے پھر رہے ہیں کہ 50 لاکھ گھروں سے اور تو اور کپڑے کی صنعت بھی ترقی کرے گی، ناچیز کو ٹوپی والے برقعے کی صنعت البتہ پھلتی پھولتی نظر آ رہی ہے، کیونکہ 50 لکھ گھر کا تو پتا نہیں جب نیا پاکستان پورا کھڑا ہو گیا، تو پروٹو کول رہیں گے نہیں، گاڑیاں بک چکی ہوں گی ، کرپشن ختم ہو چکی ہو گی، تب وزرا اور مشیران کی فوج ظفر موج اور دیگر ہمنوا یہی ٹوپی والے برقعے پہن کرہی انڈے اور دودھ لینے نکل پائیں گے۔ یہ کام اگر ایسا آسان ہوتا تو ساری دنیا کے وہ ممالک، جن کی معیشیت ہم سے حجم میں کہیں بڑی ہیں اور امریکہ ہی کی طرح قرض پر چلتی ہیں کے تمام شہری اپنے اپنے گھر کے مالک ہوتے۔

ہاں کوئی مثال ملتی ہے تو ان سب کے الٹ ایک ملک جہاں جنرل قذافی نے بطور ریاست اپنے شہریوں کو گھر مفت میں فراہم کیے تھے۔ اگر آپ وہ سوچ کر جا رہے ہیں تو خان صاحب کو اچھی سوچ کے دس میں سے دس نمبر مگر اس کو اگرآپ اپنی معاشی پالیسی کے طور پر لا رہے ہیں تو پھر اس سکیم کے خالقوں کو سات توپوں کی سلامی، چھ سلامیاں پہلے کرا کے تسلی کرا لیں اور ساتویں میں خود بھی بٹھا دیں، تاکہ ملک و قوم مزید نقصان سے بچ سکے کہ اس کی قیمت آخر میں اس غریب سمیت سب پاکستانی چکائیں گے مگر کچھ لوگ اتنا پیسا بنا جائیں گے کہ ان کی پشتیں سنور جائیں گی، قیمت البتہ ایسی جو سوچ کر خوف آتا ہے۔

چچا غالب یقیناً روحانی طور پر پاکستانی ہی رہے ہوں گے جو فرما گئے،
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض۔ اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا۔ ہو گیا ہے شریک ساہوکار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).