درس و تدریس جیسے حقیر پیشے میں کیا پڑا ہے


پدرشاہی نظام کی رو سے ہمارا تعلق ایک پسماندہ دیہی علاقے سے ہے۔ باوجود اس کے کہ والدہ کا تعلق ایک پڑھے لکھے اردو اسپیکنگ پٹھان گھرانے سے ہے پدر شاہی نظام کے تحت ہم خود کو خوشاب کے اسی پسماندہ دیہات سے سمجھتے ہیں جہاں آج بھی دو وقت کی روٹی ایک لگژری ہے۔ والد صاحب تعلیم اور معاش کی غرض سے اپنے آبائی گاؤں سے کب کے شہر کا رخ کر چکے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود ہماری اصل وہی ہے اور رہے گی۔

بظاہر ایک شہری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمارے گھر کی بہت سے اقدار ابھی بھی وہی ہیں۔ گاؤں سے آنے والی برادری کو ابھی بھی گھی میں پکا مرغی کا سالن، لال گندم کی روٹیاں اور سوجی کا سنہرا حلوہ ہی کھلایا جاتا ہے۔ شہر کی بودوباش اختیار کرنے کے باوجود ابھی بھی بہت کچھ نہیں بدلا۔ بلکہ اگر خدا لگتی کہیں تو ہم بیت سے معاملوں میں گاؤں والوں سے زیادہ قدیم ہے۔ ان کے ہاں تو اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔

اب تو وہاں لڑکیاں تعلیم بھی حاصل کرنے لگی ہیں اور نوکریاں بھی لیکن جب کا قصہ اس وقت آپ کے سامنے بیان کیا جا رہا ہے اس وقت ایسا رواج کچھ کم تھا۔ کچھ تو والد صاحب پر شہر کا رنگ آ چکا تھا اور کچھ ایک پڑھی لکھی بیوی کا کہ انہوں نے ہمیں خوب پڑھایا۔ انجینیئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم دلائی۔ لیکن جو بات اس کہانی کا کلائمکس ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ اجازت نہ دی کہ فیلڈ کی نوکری کریں۔ بس یہیں تک کہا کہ لڑکیوں کے لئے یہی مناسب ہے کہ ٹیچنگ کر لیں۔ اس میں بہت عزت ہے۔ ہم کم عمر بھی تھے اور کم عقل بھی۔ اسی پر آمین کر بیٹھے۔

پڑھانا شروع کر دیا۔ کمائی کم تھی لیکن سرشاری بہت تھی۔ طلباء کی تکریم ہی ہمارا کل اثاثہ تھی۔ آج بھی وہی عزت ہماری متاع حیات ہے۔

مسائل جاناں کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے۔ لوٹے تو ایک یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اگر پاکستان میں گزرے مشکل وقت کو جانچیں تو درسگاہ میں گزرا وقت ہی ہماری تاریک زندگی میں روشنی کی لکیر ہے۔ انسان عزت کا بھوکا ہی تو ہے۔ روٹی تو کہیں سے بھی مل جاتی ہے۔ والد صاحب بھی بہت خوش ہیں کہ بیٹی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔ گاؤں والوں کو بھی فخر سے بتاتے ہیں کہ آخر انبیاء کا پیشہ ہے۔ لڑکیوں کے لئے یوں بھی بہترین نوکری یہی ہے۔

لیکن ابھی دو دن سے ہمیں لگنا ہے کہ اپنی ہستی کی طرح یہ عزت بھی محض ایک سراب ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک ایسی ویڈیو دیکھ لی جس نے ہمارا دل چکناچور کر دیا ہے۔ والد صاحب کے وچار پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ پولیس کے کچھ اہلکار پنجاب یونیورسٹی کے مشہور اساتذہ جناب مجاہد کامران، اکرم چوہدری، امین اطہر اور مسعود راس صاحب کو ہتھکڑیوں میں جکڑے دیکھا۔ ان محترم ہستیوں کو پانی کی بوتلیں پکڑے دیکھا کہ عمر کے اس حصے میں سانس پھولتا ہے۔ ان کو پولیس اہلکاروں کا سہارا لئے دیکھا کہ بڑھاپے کا تقاضا ہے۔ یہی نہیں اس معاملے کی ویڈیو بھی بنی اور ہر طرف دیکھی بھی گئی۔ یہی ہے یہ تکریم والا پیشہ؟

کون سی عزت؟ کہاں کے استاد؟

من حیث القوم ہم جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس ویڈیو نے ہمارے رہے سہے ڈھکوسلے بھی مٹا دیے۔ استاد کو ہتھکڑی لگائی جا سکتی ہے لیکن ایس پی راؤ انوار کو نہیں۔ استاد کو ہتھکڑی لگائی جا سکتی ہے لیکن جناب خادم رضوی کو گالم گلوچ کے باوجود نہ صرف سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے بلکہ ان کے مریدوں میں چیک بھی بانٹے جاتے ہیں۔ احسان اللہ کا ٹی وی کا انٹرویو بڑی ہی بے شرمی سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ حافظ سعید صاحب کے ساتھ سیلفیاں اٹارنی جاتی ہیں۔

تف ہے اس متعفن معاشرے پر جہاں ”سنگ“ آزاد ہیں اور استاد کٹہرے میں۔

والد صاحب کو سمجھنا پڑے گا کہ تدریس اس مملکت خداداد میں بالکل معزز پیشہ نہیں۔ سب والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو خادم رضوی صاحب کی شاگردی میں دیں۔ راؤ انوار صاحب سے جعلی پولیس مقابلے کی ٹریننگ دلوائیں۔ طالبان کی سرپرستی میں دیں۔ خودکش دھماکوں کی پلاننگ سکھائیں۔
یہاں اسی کا اسکوپ ہے۔ اسی میں عزت ہے۔ درس و تدریس جیسے حقیر پیشے میں کیا پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).