چالیس برس پرانا ایک ہوائی حادثہ اور ہماری ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں


ستائیس مارچ 1977 کو پین امریکن ائرلائن (Pan American) اور کے ایل ایم ائر   (KLM)کے بوئنگ طیارے اپنے اپنے ملکوں سے اڑے ۔ منزل کینری آئی لینڈ تھی۔ لیکن سیکورٹی صورتحال کے باعث دونوں پروازوں کو قریب واقع ٹینی رایف ائر پورٹ پر اترنا پڑا۔ اس چھوٹے سے ائرپورٹ پر ہمارے تربت ائرپورٹ کی طرح کبھی کبھار جہاز اترا کرتے تھے۔ لیکن کینری ائرپورٹ کی بندش کے باعث آج پانچ جمبو طیارے ٹینی رائف ائر فیلڈ کی پارکنگ میں تھے۔  ائر پورٹ کا لاؤنج سیاحوں سے کھچا کھچ تھا ۔ ائر سٹرپ اور ٹیکسی وے طیاروں سے بھری ہوئیں تھیں۔

نیدر لینڈ کی کے ایل ایم کے بوئنگ 747 کو اڑانے والے پائلٹ کا نام ویلڈھن زینٹ تھا۔ یہ اپنے دور میں نہ صرف دنیا کا چیٖف پائلٹ تھا بلکہ ہوا بازی کا انسٹرکٹر بھی تھا۔ یہ اپنی زندگی کے گیارہ ہزار گھنٹے جہاز اڑاتے گزار چکا تھا۔ کنٹرول ٹاؤر سے کلیرنس ملی تو پین امریکہ کے جہاز کی پہلی باری تھی لیکن اس کے آگے کے ایل ایم  کا جہاز فیول ڈلوا رہا تھا۔ پینتیس منٹ انتظار میں گزر گئے۔ ٹینک فل ہوا تو کے ایل ایم کو ہدایت ملی کہ ائرسٹرپ کے اختتام پے جا کر یو ٹرن لے کے کھڑا ہو جائے اور ٹریفک کنٹرول ٹاور سے اڑان بھرنے کی اجازت کا انتظار کرے۔ ماہر پائلٹ نے ایسا ہی کیا۔ اسی دوران پین امریکہ کے جہاز کو کہا گیا کہ وہ بھی ٹیکسی کرتا جائے اور مین ائر سٹرپ کے اختتام سے پہلے دائیں جانب مڑ کر ایک چھوٹی سٹرپ سے ہوتا ہوا کے ایل ایم کے پیچھے کھڑا ہو جائے اور ٹریفک کنٹرول کی کال کا انتظارکرے۔ اتنے میں سمندری دھند نے پورے ائرپورٹ کو اپنے لپیٹے میں لے لیا۔

کے ایل ایم تیار تھا لیکن اسکے پائلٹ کو رن وے صرف تین سو میٹر دور ی تک نظر آرہا تھا اور اس فاصلے پر کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس نے جہاز کو ریس دی اور فلائٹ سسٹم آن کرنا شروع کیا۔ بیالیس سالہ نائب کپتان کلاسمیور نے پائلٹ کو بتایا کہ ٹریفک کنٹرول سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ ہمیں رن وے کلیرنس کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ شائد پین امریکہ کا جہاز ابھی تک ہمارے پیچھے اڑنے کے لئے نظر نہیں آیا۔

شدید دھند تھی۔ پین امریکہ کا جہاز ائر سٹرپ کے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تاکہ کے ایل ایم کے پیچھے کھڑا ہو جائے اور اپنی باری کا انتظار کرے۔ نہ ہی رن وے کے اوپر ڈیڑھ کلومیٹر دور کھڑا کے ایل ایم کا بوئنگ نظر آ رہا تھا نہ دائیں یا بائیں مڑنے کے لئے کوئی راستہ نظر آرہا تھا۔ پائلٹ ہلکی رفتار سے ٹیکسی کرتا آگے بڑھتا رہا۔ دوسری طرف ویلڈھن زینٹ نے لینڈنگ گئیر اور تھرسٹ لیور پے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ساتھ بیٹھا جونیئر پائلٹ کلاسمیور اپنے سینئر کو قائل نہیں کر سکا۔ جہاز نے سپیڈ پکڑنا شروع کی اور چند ہی سکینڈز میں یہ 294 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے لگا۔ ائیر کنٹرول ٹاور کو ڈھلتے سورج اور دھند کے باعث پتہ نہیں چلا کہ رن وے پے دو جہاز آمنے سامنے بڑھ رہے ہیں۔

خراماں خراماں ڈگیں بھرتے پین امریکہ کو تین سو میٹر کی دوری سے اندازہ ہوا تو پائلٹ نے بےساختہ جہاز کو بائیں موڑنے کی کوشش کی۔ جہاز کچھ مڑا ، لیکن 583 لوگوں کی قسمت ہار چکی تھی۔ کے ایل ایم کی فلائٹ کا نچلا حصہ اڑان بھرتے ہوئے سامنے سے گزرتے ہوئے پین امریکہ کی چھت سے ٹکرا کر نیچے آ گرا، قلابازیاں کھائیں ، دھماکہ ہوا ، آگ لگ گئی۔ پین امریکہ کا آدھا حصہ ٹوٹ کرتھوڑی دور جا گرا، اس میں بھی آگ لگ گئی۔ یہ ہوا بازی کی تاریخ کا سب سے ہولناک حادثہ ہے۔ چالیس برس بیت گئے ہیں لیکن اس حادثے کے حقائق آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔

اس حادثے نے ہوا بازی کے آدھے قوانین اور ضابطے بدل ڈالے۔ نئے آلات متعارف ہو گئے ۔ ریڈار ٹیکنالوجی میں اصطلاحات ہوئیں۔ حادثے کے مرکزی کرداروں کی نفسیات پر ایک دقیق مطالعے کا آغاز ہوا۔ حادثے کی وجوہات کے حوالے سے کئی تھیوریز نے جنم لیا۔ عام لوگوں نے وجوہات اور نظریات میں پناہ لی اور دنیا کی رونقوں میں کھو گئے۔ لیکن ایک مسلمہ حقیقت رہ گئی۔ کتنی ہی بڑی ائر لائن کیوں نہ ہو، کتنا ہی ماہر پائلٹ کیوں نہ ہو ، کسی بھی ملک کا ہو، کتنی بھی جلدی ہو، کتنی بھی رفتار کیوں نہ ہو، کتنے ہی لوگ ساتھ سوار کیوں نہ ہوں، اگر سمت غلط ہو تو نقصان بھاری ہوتا ہے، ہر ملک میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ بھلے جتنی بھی عقل ہو، بے شمار ہنر ہو پھر بریک نہیں لگتی، پھر ساتھ بیٹھے جونیئر پائلٹ کی بات بھی دل کو نہیں لگتی، سالوں کا تجربہ کام نہیں آتا، انسان ایک داستان بن جاتا ہے۔

یہ تو چالیس سال پہلے کے ایک جہاز کی کہانی ہے جو ایک ماہر پائلٹ کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی زمین پے اتنے بڑے حادثے کا شکار ہو گیا۔ آج آٹو میشن اور مصنوعی ذہانت کا دور ہے۔ کئی ائر لائنز میں پائلٹ کو محض رسماً بٹھایا جاتا ہے۔ جہاز کی لینڈنگ، ٹیک آف اور پرواز سب خود کار ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں اسکی اجازت ہے۔ یہ نظام کئی سو کلو میٹر پہلے ہی معلوم کر لیتا ہے کہ آگے موسم خراب ہے۔ متبادل راستہ کونسا ہوگا۔ زمین پے کیا صورتحال ہے ۔ اب کیٹگری چار کے لینڈنگ سسٹم آ گئے ہیں۔ دھند اور بارش میں جہاز کو آرام سے اتار دیتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوا ہے کہ ہوابازی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔  تحقیق و ترقی انسانی طمع کے زیر تابع ہوتی ہے۔ جہاں پیسے نظر آئے انسان نے وہاں پیسہ لگانا شروع کر دیا۔ نتائج جدت کی صورت میں نکل آئے ۔ لیکن یہ اتنے پیسے ہوا بازی میں آئے کہاں سے۔ اپنے تو خسارے ہی نہیں پورے ہو رہے۔ صاحب جب ہارورڈ ، سٹین فورڈ یا معاشیات کے دوسرے شعبوں کےتعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ ائر لائنز کو بزنس ماڈل کے طور پے چلاتے ہیں تو  ائرلائنز پوری ملکی اکانومی کو سپورٹ کرتی ہیں۔ یہ بڑا حساس کاروبار ہے۔ مہینوں میں امیر کرتا ہے ہفتوں میں غریب بھی کر دیتا ہے۔

پی آئی اے ہماری ملکی معشیت پر ہر سال ایک حادثے کی طرح گزرتی ہے۔ اربوں کے خسارے کے باجود بھی نہ کوئی قانون بدلا ہے نہ ضابطہ۔ پچھلے سال ایک معاشی ایکسپرٹ نے کہا تھا کہ اگر پی آئی اے کو ایک روپے میں بیچ دیا جائے تو اگلے سال حکومت کو سو ارب کا منافع ہو گا۔ پچھلی حکومت اسی سال کے آغاز میں پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنا چاہتی تھی۔ لیکن پھر ایک عاشق وطن شہری نے اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ممنوع قرار دیتے ہوئے خساروں کی وسیع و عریض تحقیقات کے احکامات بھی صادر فرما دیئے۔ پینتالیس ارب کا خسارہ تو ہو چلا ہے۔ اللہ ہی پوچھے گا۔ لیکن یہ جو ائرمارشل کو سی ای او، پی آئی اے لگا دیا گیا ہے تو ائر فورس کو کون دیکھے گا۔ صاحب یہ قومی ادارے ہیں یا پرچون کی دکان؟ آپ مانیں نہ مانیں ہمارے کرتا دھرتا کے ایل ایم کے پائلٹ کی طرح نامور تو ضرور ہیں لیکن ان کی سمت بھی اسی کی طرح تباہ کن انجام کی طرف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).