سرکاری سکول میں وزیرتعلیم کی صاحبزادی


سندھ کے صوبائی وزیرتعلیم سردار علی شاہ کی صاحبزادی کے حیدرآباد کے ایک سرکاری سکول میں داخلے کی خبر نے ملک کے طول وعرض میں ایک خوشگوار ہلچل مچادی۔ 881,913مربع کلومیٹر اور بائیس کروڑ آبادی پر مشتمل اس ملک کے غالباً وہ دوسرے وزیر ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو سرکاری سکول میں داخل کرایاااور ہم عصروں کے لیے ایک مثال قائم کی۔

سرکاری سکولوں اور کالجوں کی ساکھ کی بحالی کی طرف اٹھایا جانے والا یہ ٹھوس قدم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے ایک سرکاری سکول کے دورے میںطلبہ کے ساتھ دلچسپ گفتگو کی۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ کی مدد سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ طلبہ نے شوکت خانم ہسپتال بنانے میں ہر اوّل دستہ کا کردار اداکیاتھا۔وزیراعظم عمران خان اب دوبارہ طلبہ سے رجوع کررہے ہیں تاکہ صاف اور سرسبز پاکستان بنانے کا خواب پورا کیا جاسکے۔

ہمارے آزادکشمیر میں بھی حکومت نے تعلیمی اصلاحات اور سرکاری نظام میں بہتری کے حوالے سے قابل قدر پیش رفت کی۔ عام اور پسماندہ گھرانوں کے بچوں کو ٹیسٹ اور انٹرویو کی بنیاد پر گھر بیٹھے ملازمت کا پروانہ ملا۔

وہ توقع نہیں کرتے تھے کہ سفارش کے بغیرسرکاری ملازمت انہیں مل سکتی ہے لیکن حالیہ دوڈھائی برس میں ہم نے ا یسا ہوتے دیکھا۔ نوے کی دہائی سے ملک میں نجی تعلیمی اداروں کا رجحان تیزی سے ابھرا۔ بتدریج اس نے مارکیٹ پر قبضہ کرلیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔

ذہین اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پہلی ترجیح نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ ہوتا ہے۔ متوسط طبقہ بھی ناقابل برداشت فیس اور اخراجات کے باوجود بچوں کو پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں داخل کراتاہے۔ عالم یہ ہے کہ سرکاری سکولوں اور کالجوںکے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں داخل کراتے ہیں۔

افسر وں کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں کہ بچوں کو سرکاری اداروں میں پڑھایا جاسکتاہے۔ اکثر کے پاس مال مفت دل بے رحم کے مصداق وسائل کی کمی نہیں چنانچہ پرائیویٹ تعلیمی ادا رے پھل پھول رہے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں میں اشرافیہ کی اولاد بھی تعلیم حاصل کرتی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد کے ایچ ایٹ او پی ایف سکول میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ میرے ایک دوست بتارہے تھے کہ صدرغلام اسحاق خان نے اسلام آباد کے ایک ماڈل سکول میں اپنی نواسی کے داخلے کی سفارش کی تو پرنسپل نے سنی ان سنی کردی۔ صدر غلام اسحاق خان کو بتایا گیا تو ضابطہ کے پابند صدر نے سکول کا دورہ کیااور پرنسپل کی سرزنش نہیں بلکہ ستائش کی۔

اسی کی دہائی میں ہمارے ہم جماعت طلبہ میں بے شمار کا تعلق اعلیٰ سرکاری افسروں کے خاندانوں میں سے ہوتاتھا۔ سیاستدانوں کے بچے بھی سرکاری تعلیمی ادارو ں میں داخلے کے لیے دھکے کھاتے۔تاجر اور کاروباری شخصیات بھی بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کراتے ۔ مادیت پرستی اور اسٹیٹس کی مسابقت نے ہماری تہذیبی روایات کو بری طرح پامال کیا۔

اساتذہ میں سے اکثر کا یہ حال ہے کہ پیسہ کمانے کی ایک مشین بن چکے ہیں۔ سرکاری اداروں کو محض ٹھکانے کے طور پر استعمال کیاجاتاہے ۔اصل روزگار یا کاروبار ان کا دوسرا ہوتاہے۔خیبر پی کے خوا میں حکومت نے دلچسپی لی تو گزشتہ پانچ برس میں سکولوں او رکالجوں کی حالت میں نمایاں بہتری آئی۔

خیبر پختون کے لوگ اس تاثر کی تائید کرتے ہیں کہ اساتذہ وقت پر حاضر ہوتے ہیں اور پڑھائی کا معیار بھی بہتر ہوا۔ سرکاری اداروں میں طلبہ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ اور معیار کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

سوادوکروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ انہیں نہ صرف سکولوں میں لانے کا ہدف مقرر کیاجانا چاہیے بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا کہ خوشحال گھرانوں کے بچے بھی شوق او رذوق کے ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف رجوع کریں۔

گزشتہ دوتین دہائیوں میں اساتذہ کے اعزازیہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اکثر کا معاوضہ نجی تعلیمی اداروں کی نسبت زیادہ ہے۔ پنشن ، میڈیکل اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جاتیں ہیں لیکن اس کے باوجود نتائج تکلیف دہ ہیں۔حکومت کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح معاشرے کے بہترین اور محنتی افراد کو استاد بننے پر راغب کیا جائے۔

جو بھی افراد نوکری کی خاطر تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں وہ بہترین معلم بن سکتے ہیں اور نہ اچھے انسان۔ فوری نتائج کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بتدریج سرکاری ملازمین کو پابند کرے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرائیں۔

انہیں راغب کرنے کے لیے خصوصی پیکیج بھی دینا پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ سرکاری اساتذہ پر لازمی قراردیاجائے کہ ان کے بچے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کریں گے ۔بصورت دیگر انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑھ سکتے ہیں۔

ایک بار اساتذہ کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھنے لگیں تو تعلیمی معیار خودبخود بہتر ہونا شروع ہوجائے گا اور شہریوں کا اعتبار بھی ان اداروں پر قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ حرف آخر: احتساب عدالت میں سابق شیخ الجامعہ پنجاب اور دیگر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگے دیکھ کر سرشرم سے جھک گیا۔

عدالت میں مقدمہ چلتا۔ انہیں صفائی کا موقع دیا جاتا اور اگر کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال ثابت ہوجاتاتو قانون کے مطابق انہیں سزا ملتی لیکن احتساب عدالت نے دھونس او رزور زبردستی کا جو تاثر قائم کیا وہ اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح کر رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں ہم باربار دیکھ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمات ہونے کے باجود عدالتیں انہیں چھو تک نہیں سکیں۔ ایس پی ملیر راؤ انوار پورے طمطراق سے عدالت آتے۔ ہتھکڑی لگانا تودرکنا ر انہیں پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیاجاتارہا۔ ایان علی کیس نے اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی مجروح کی ۔وہ ایک وی آئی پی قیدی رہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے مقدمات کی تحقیقات ضرور کرے لیکن جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے گرفتاریاں اور ہتھکڑیاں نہ لگائی جائیں۔یہ ایک غیر مہذب طرزعمل ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood