’’گردباد‘‘گم گشتہ لمحوں کی داستان نہیں


گردشِ دوراں کی کوئی بھی ساعت بقائے کائنات کی خاطر ذرا سی بھی ناگزیر ہوتی تو قدرت اِسے کبھی بھی رفتگاں کی رو میں بہا کر رائیگاں نہ کرتی اور اُن لمحوں کو بھی ابدیت نصیب ہو جاتی جو خالقِ وقت کو عزیز تر ہوتے اوروہ لمحے بھی کائنات کے بہت سے مستقل مظاہر کی مانند فنا کی زد سے عاری ہوتے یہ الگ بات آگ اُگلتے سورج، چاند، ستارے، صحراء جنگل، پہاڑ، زمینیں، بحر و بر اگرچہ بقا کے محاذ پر ازل سے ڈٹے ہیں مگر ثبات اِن میں بھی نہیں اور ہر ذرّہ، بوند مستقل فنا اور تخلیقِ نو کے عمل میں تغیر پذیر ہے۔ ہر اہم اور غیر اہم منظر نامہ گزرتے ہوئے لمحے میں گم ہو کر سر پر تنے اس گردباد میں جا کر کبھی ضم نہ ہوتا جِسے ہم ”آسمان‘‘ کہتے ہیں، اگر قدرت کی نظر میں اُسکی کوئی وقعت ہوتی۔

محمد عاطف علیم کی تیسری کتاب اور دوسرا ناول ” گردباد‘‘ (2017) ایسے ہی گزرے اور گمشدہ لمحوں کی داستان ہے جِن کی دھول میں اٹا ہر موجود لمحہ اُس گرد آلود آئینے کی طرح ہمارے سامنے ہے جس میں نہ تو ہمیں فردا دکھائی دے رہا ہے نہ اپنا چہرہ۔ شناخت کی اسی تراش خراش کی کوششِ لاحاصل میں اُلجھا ہمارا ”حال ‘‘اُس آسیب زدہ شیش محل جیسا ہے جس کے ہر گوشے میں ہمیں گمشدہ تہذیبوں کی صدیوں پرانی حنوط شدہ یادگاریں دکھائی دے رہی ہیں اِن حنوط شدہ لاشوں پر انسانی تاریخ آئندہ آنے والے زمانوں میں سالہا سال بھی ماتم کناں رہے تب بھی المناکی کی یہ داستان بنی نوع انسان کے تہذیبی ارتقا کے فریب کا نوحہ ختم نہ کر پائے گی۔

آج دُنیا میں اور خاص طور پر پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر جس نوعیت کا عدم برداشت اپنے مظاہر کے عروج پر ہے یقیناًبین الاقوامی محاذ پر ملک کی معاشی اور تہذیبی ترقی میں کسی بڑی رکاوٹ سے کم نہیں۔ حالیہ انتخابات سے اخذ شدہ نتائج اگرچہ اعدادو شمار کے مرہون مِنت ہیں اور بظاہر مذہبی جماعتیں خاطر خواہ کامیابی سے ہمکنار تو نہیں ہوئی ہیں لیکن اعدادو شمار بہرطور بنیاد پرست حلقوں کے لئے حوصلہ افزا ہیں اُس پر مقتدرہ اداروں اور عسکری و سِول اشرافیہ کے بین بین اہلِ فکر و نظر کی اجتماعی نفسیات جس سفّاکی سے عقائد کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تعصبات کے زیرِ عتاب ہے، یہ رجحان دیکھے ان دیکھے لاتعداد قومی المیوں کا واضح اشارہ ہے۔

حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے ماہرِ معاشیات کی بطور مشیر تقرری اور برطرفی کا واقعہ، جامعات کے اندر سوچ رکھنے اور سوال اُٹھانے والے طلبا اور اساتذہ کے غیر محفوظ جان و مال، طبقاتی تفرقات کی اساس پر اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک اور اس ضمن میں قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں کی خاموشی اور بے بسی، نعرہ باز دھرنا اور دھونس جمانے والے پریشر گروپس کے ہاتھ میں عقیدے کے ساتھ جنونی وابستگی کی چابک اُس پر میرِ کارواں کے اختیار میں بپھرے ہوئے ہجوم کو ہانکنے کی طلسماتی قوّت، پیروکار، پیر اور پیر نیوں کے مابین نسل در نسل اپنی جڑیں پکڑتا روحانی رومان، منبر ومحراب کے چوکٹھوں میں سر بلندی سے ایستادہ تقّدس، انسانیت اور علم و اخلاق کے مبلغین و دعویدار، لاوڈ سپیکروں پر واجب القتل کے جاری ہوتے فتوے مجموعی طور پر ایک ایسی خود کلامی کا غلبہ کیے ہوئے ہیں جس کی گونج میں مکالمے کے لیے اُٹھتی کوئی بھی آواز بہت آسانی سے دب سکتی ہے۔

اگرچہ حالیہ حکومت نے بھی گزشہ حکومتوں کی طرح معاشی تنہائی کے خوف میں بین الاقوامی حکم نامے کے زیرِ اثر انسدادِ دہشت گردی کی کاوشوں کو ریاست کی سطح پر منظم کرنے کا اعادہ کیا تو ہے لیکن دانشورانہ سطح پر متبادل بیانیئے کی تراش خراش اُس وقت تک ممکن نہ ہو گی جب تک شدّت پسندی کے عفریت کی شروعات کا سراغ نہ لگایا جا سکے اس شدّت کے ڈانڈے کہاں جا کر ملتے ہیں یہ جاننے کے لئے نسل در نسل ”اُلجھے سنورے ‘‘سماجی رویوں کی مدھ بھیڑ میں داخل ہونا پڑتا ہے اور یہ مہم جوئی فقط ایک ادیب ہی کر سکتا ہے سو محمد عاطف علیم نے ایسا کر دکھایا ہے۔
”گردباد‘‘ کی کہانی علامتی طور پر اَسّی کی دھائی کے ایک ایسے عہدِ رفتہ سے اُٹھائی گئی ہے جو نہ صرف خطے کی تقسیم اور اُس سے پہلے کی سامراجی قوتوں کے زیرِ اثر تہذیبی پسپائیوں کی دھول کا منظر نامہ پیش کرتا ہے بلکہ نوّ ے کی دہائی سے نائن الیون تک کے معاشرتی رویوں کے زمینی حقائق کو بھی کھوجتا ہے۔ اس سارے ” گردباد‘‘ کو قلم کی دسترس میں لانے کے لیے عاطف علیم نے جس تجربہ گاہ کا انتخاب کیا وہ اُس کا آنکھوں دیکھا ور ہڈ بیتا عہدِ آمریت ہے، پاکستان کا عہدِ آمریت۔

صحافت، کالم نگاری اور افسانہ نگاری عاطف علیم کی ابتدائی محبتیں ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ” شمشان گھاٹ ‘‘ (2001)کی کہانیوں کے چیختے چلّاتے کردار اور ”مشک پوری کی ملکہ‘‘ (2015)کے گھنے جنگلوں میں دھاڑتی چنگھاڑتی مامتا اِس سیاّرے پر انسانی رشتوں کی بقا کا ہی راگ الاپ رہے ہیں۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پنجاب کے گاؤں کا پس منظر” گردباد‘‘ کی سیٹنگ ہے۔ قبل از تقسیم کے ہندوستان کی نسل در نسل روایتوں، عقیدوں، تعصبات اور آدرشوں کی دُھند میں سے جھانکتی انسانی شعور کی فصل جب اَسّی کی دہائی میں آمریت کے بلڈوزر کی زد میں آ کر اپنی موت آپ مرنے لگتی ہے تو کیسے کیسے چودھری فلانے، ملک ڈھمکانے، طوطی جان اور شمو کنجریاں موچی، نائی، چنگڑ، کمی کمین بالا دستوں کی دلجوئی کے لیے اپنے خون پسینے کی دھار پر سستے داموں عزتوں اور بھرموں کا سودا کرتے ہوئے سر اُٹھاتے ہیں۔ یہ اس کہانی کا بیرونی منظر نامہ ہے۔ تھوڑا اور آگے زمانہ آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں وہی محنت کش، مزدور اور کم ذات پل ہی پل میں حضرت مولانا چراغ شاہ الہاشمی و القریشی اور ” جٹ شوز‘‘ کے ”سی ای او ‘‘بن کر جست در جست چودھراہٹوں کے اونچے شملوں اور رنگلے پلنگوں پر بوٹوں سمیت دندناتے ہوئے مارچ کرتے دکھائی دینے لگتے ہیں، کہانی کا یہ مرکزی دھارا بہت سی دیگر آبشاروں، ندیوں، نالوں اور پہلو در پہلو ٹھہری، منجمد، متحرک جھیلوں، تالابوں کے ساتھ قاری کی فکری زرخیزی کو مزید سیراب کرتے ہوئے اُسے متن کی گہرائیوں میں غوطہ زن رہنے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ” گرد باد‘‘ ہمعصر اُردو کہانی کا ایک ایسا نمائندہ فن پارہ ہے جو عاقبت اندیشی کا گیان بھی دیتا ہے اور ادیب کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی سماجی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ اتنے دقیق موضوعات کے باوجود تکنیک کے اعتبار سے عاطف علیم نے فنکارانہ مہارت کے ساتھ ناول کو تجرباتی اسلوب دیا ہے۔ فلیش بیک، فلیش فارورڈ اور انٹر کٹ تکنیک میں لکھے گئے برق رفتار کسی سکرین پلے کی مانند ناول نگار نے کہانی کو جدّت سے پیش کیا ہے۔

اب تک عاطف علیم اتنی آسانی سے سمجھ میں آنے والا لکھاری نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن گردباد لکھتے ہوئے اُس نے قاری کی سہل پسندی اور ایکسپوژر کے پس منظر کا زیادہ امتحان نہیں لیا بلکہ شعوری کوشش کے ساتھ وہ جمالیات کا سہارا لیتے ہوئے کہانی کو سہل بناتا چلا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ادبی فن پاروں کی قرأت فقط ادبی حلقوں میں محدو د ہو کر رہ گئی ہے لیکن اب ضروری ہو چلا ہے کہ پاکستان میں لکھنے والا کہانی کار خوا ہ وہ انگریزی میں لکھ رہاہے، اُردو میں یا کسی بھی مقامی زبان میں اُسے ایک بیدار سیاسی شعور کے ساتھ فرد کے خوابوں اور حقیقتوں کی کہانی لکھنی ہو گی تبھی ہم بحیثیتِ مجموعی اپنے سماجی شعور کا تعین کر سکیں گے۔ خالصتاً فنکارانہ اسلوب میں تجرباتی اور تجریدی ادب پارہ تخلیق کرنا اگرچہ ادیب کا ذاتی فیصلہ یا واردات ہے لیکن بائیس کروڑ کی آبادی میں فقط پانچ سو کی تعداد میں اُردو نثری ادب کی کتاب کی اشاعت جو پہلے ہی لکھاری کے لیے خاصی حوصلہ شکن ہے۔ یہ حقیقت ہمارے کانپتے لرزتے قومی ادراک کا پتہ دے رہی ہے۔ موجودہ سیاسی اور معاشرتی حالات کی جو گھمبیرتا ہے اُسکے باوجود عاطف علیم کے ” گردباد‘‘ کی اشاعت ذرائع ابلاغ کا اہم موضوع نہیں بنتی تو ہمارے ثقافتی تنزل کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).