بستی میں ہمیں بھی رہنے دو


جسٹس شوکت صدیقی جو دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے تھے آخر کار عین توقع کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی اوٹ و آڑ لے کر رسوا کن طریقے سے اپنے عہدے سے برطرف کر دیے گئے۔ انہیں اسلام آباد بار میں ایک متنازعہ تقریر کرنے کی پاداش میں اس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ یاد رہے کہ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ مقتدر حلقے کے اعلی افسران مقدمات کے حوالے سے براہ راست احکامات صادر کر کے اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 21 جولائی کی اپنی تقریر پر انہوں نے جو دو جوابات جمع کروائے تھے انہیں مسترد کر دیا گیا۔ کونسل نے ان کی پبلک میٹنگ میں اداروں پر تنقید کو ضابط اخلاق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سفارش کی کہ انہیں عہدے سے برطرف کر دیا جائے۔ ادھر جناب صدر جیسے پہلے سے برطرفی کی سمری پر دستخط کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ اس طرح عدلیہ کے ایوانوں میں گونجنے والی ایک مؤثر، بھرپور اور توانا آواز کا گلہ گھوںٹ دیا گیا۔

لب اظہارپہ تالے ہیں، زباں بندی ہے
فکرآزاد پر اس دورمیں پابندی ہے
کوئی منصورہے، سرمدہے نہ رومی، جامی
عشق کے بازارمیں مدت سے مندی ہے

جسٹس شوکت صدیقی کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے کمانڈو جنرل کو ایمرجنسی کے نفاذ کے کیس میں کمرہ عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دے کر بہت بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ 2011 میں سی ڈی اے حکام کو جیل بھیجا تھا جنہوں نے بعد میں جسٹس صاحب پر سرکاری گھر کی آرائش کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔ توہین آمیز خاکوں کے کیس کی سماعت کے دوران فیس بک کی بندش کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کے دھرنے کو غیرقانونی قرار دے کراسے ختم کرنے کے احکامات صادر کیے تھے۔ آرمی پریڈ گراؤنڈ کو سپیچ کارنر کا درجہ دے کر اسے جلسے جلوسوں کے لیے مختص کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ دھرنے یاجلوس کی شکل میں جڑواں شہروں کے باسیوں کو اذیت سے نجات مل سکے۔ فیض آباد میں تحریک لبیک کے دھرنے میں آرمی چیف کے ضامن بننے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آرمی کو سیاسی امور میں مداخلت سے باز رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ان کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔

عمران نیازی کے دوست زلفی بخاری کا نام واچ لسٹ سے نکالنے کے ذمہ داران سے جواب طلبی جیسا ”بہیمانہ“ فعل بھی ان کے جرائم میں شامل تھا۔ پرائیویٹ سکول مافیا کی اجارہ داریوں اور من مانیوں کے خلاف ایکشن لینا بھی کچھ طاقتوں کی طبع نازک پر گراں گزرا۔ خفیہ ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ ختم نبوت کے مسئلے پر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو منظر عام پر لا کر ن لیگ اور پی ٹی آئی کے دوغلے کرداروں کو بے نقاب کیا۔ سی ایس ایس امتحانات میں آرمی کوٹہ ختم کرنے کی بات کی اور سول انتظامی عہدوں پر فوج کی براہ راست مداخلت کو روکنے کی کوشش کی۔ یقینی طور پر ان کے یہ جرائم معاف کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سرسری سی کارروائی کے بعدانہیں کھڈے لائن لگا کر راستے کے بہت بڑے کانٹے کو صفائی سے ہٹا دیا گیا۔

ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خار راہ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم

ہم جسٹس شوکت صدیقی کے نقطہ نظر، فیصلوں اور مؤقف سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر صرف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور مقتدر اداروں کے خلاف الزامات پر ان کو اس طرح توہین آمیز طریقے سے ملازمت سے بر طرف کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ الزامات کسی مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ ایک بڑی عدالت کے کہنہ مشق جج کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات تھے۔ ان کی تحقیق و تفتیش تو کی جانی چاہیے تھے۔ فرض کریں کہ اگر عدلیہ کے کام میں مداخلت کے یہی الزامات پارلیمنٹ، سیاستدانوں، پولیس یا کسی سول ادارے پر لگائے جاتے تو اس کا بھی یہی نتیجہ نکلتا؟ دو دو پاکستان کی جگہ ایک نیا پاکستان بنانے والوں کو کیا یہ دکھائی نہیں دیتا کہ مہذب اورجمہوری ملک میں طاقتور اور کمزور کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں میں اس طرح بعد المشرقین نہیں ہوتا؟ نئے پاکستان میں معیشت سے سیاست تک، حکومت سے عدالت تک، سینیٹ سے قومی اسمبلی تک، قانون سے دستورتک اور تعلیم سے صحت تک ہم کون سی روایات متعارف کروا رہے ہیں؟

ایک طرف معماران قوم کو سر عام ہتھکڑیاں لگا کر پابند سلاسل کر رہے ہیں، دوسری طرف انتقامی کارروائیوں کو احتساب کا نام دے رہے ہیں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ان دیکھی غیراعلانیہ سنسر شپ پالیسی نافذ کر کے اظہار رائے کی آزادی کو پابجولاں کر کے آوازوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کیا ہم ابھی اس جنگل سے نہیں نکلے جس کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں ایک مقدمے کے حوالے سے حسرت و افسوس سے کہا تھا؟ مقتدر اداروں کے لوگ کسی عدالت کو جواب دہ کیوں نہیں؟ جناب چیف جسٹس کا رویہ جنرل مشرف اور اسحاق ڈار کے حوالے سے اتنا تفاوت کا شکار کیوں ہے؟ کوئٹہ میں ڈاکٹرشازیہ کے مشہور ریپ کیس کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کس طرح جنرل مشرف نے کیپٹن حماد کو ٹی وی پرآ کر کلین چٹ دی تھی اور ڈاکٹر شازیہ کو کسمپرسی کے عالم میں دریدہ جسم و گھائل روح کے ساتھ ہجرت کرنا پڑی تھی۔ خدا کے لیے اس ملک کو جمہوری انداز سے آگے بڑھنے دیا جائے۔ آخر میں احمد فراز کی ایک نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ یہ نظم انہوں نے کئی دہائیاں پہلے کہی تھی مگر آج کی بپتا لگتی ہے۔ اسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی کچھ نہیں بدلا:

تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہرمیں پھر کیادیکھوگے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہرکھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).