جب پنجاب کا طاقتور چیف سیکرٹری لاہور کے پٹواریوں سے جنگ ہار گیا


چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور کے پٹوار خانوں اور پٹوایوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے جواب مانگ لیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ لینڈ ریونیو اتھارٹی کی بجائے اب پٹواری کس حیثیت میں اور کس قانون کے تحت منتقل کر رہے ہیں اور وہ کس قانون کے تحت کام کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس کے ان ریمارکس اور ایکشن سے بعض لوگ یہ تاثر لے رہے ہیں کہ پٹواریوں کی اب شامت آئی کہ آئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پٹواری ملک میں ایک ایسے فرد کا نام ہے جسے آج تک کوئی نکیل نہیں ڈال سکا۔ سابق وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کی طرف سے لینڈ ریکارڈ کی کمپوٹرائزیشن کا عمل بھی پٹواری کے کردار کو کم نہ کر سکا اور آج بھی پٹواری اسی شان و شوکت کے ساتھ اپنی دکان داری سجائے بیٹھا ہے۔

یہ مشہور واقعہ جس کا ذکر پرانے بیورو کریٹس آپس میں بیٹھ کرتے ہوتے ہیں کہ سابق صدر ایوب خان عہدہ صدارت پر براجمان ہوئے تو انہوں نے اپنی والدہ کو کہا کہ اماں جی ہر فصل پر آپ جو پٹواری کو گندم دیتی ہوتی ہیں اس کی مقدار اس بار دگنی کردیجیے گا۔ جس پر ان کی والدہ نے کہا کہ بیٹا تم تو اب صدر پاکستان بن گئے ہو۔ اب ان پٹواریوں کی کیا مجال جس پر ایوب خاں نے کہا اماں جی آپ کو نہیں اندازہ کہ پٹواری کس چیز کا نام ہے۔

سال 2009 کی بات ہے لاہور کے علاقے جلو موڑ میں ایک قطع اراضی جہاں حال ہی میں بوٹینکل گارڈن بنایا گیا ہے۔ ان دنوں یہ ایک چٹیل میدان تھا۔ اس اراضی کی ملکیت کے دعوے دار وں میں محکمہ جنگلات، محکمہ وائلڈ لائف کے ساتھ پارک اینڈ ہارٹیکچر اتھارٹی کے درمیان ٹھن گئی۔ ایسی ٹھنی کہ بات عدالتوں تک جا پہنچی۔

اس وقت چیف سیکرٹری جو اپنے وقت کے بہت فعال بیورو کریٹ تھے انہوں نے معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، متنازِع اراضی کے حوالے سے موقِع پر میٹنگ صبح آٹھ بجے ہی بلا لی۔ جس میں تمام دعوے دار محکموں اور اداروں کے علاوہ علاقے کے اور ارد گرد کے دیگر علاقوں کے پٹواریوں کو بھی طلب کیا گیا۔ میٹنگ کے لیے جلو پارک کے مین گراونڈ میں بہت بڑا پنڈال سج گیا۔ محکمہ جنگلات، وائلڈ لائف اور پی ایچ اے کے حکام کے علاوہ پٹواری بھی موقِع پر پہنچ گئے۔

بس پٹواریوں نے آنے کے بعد تھوڑی یہ احتیاط کی کہ اپنی لگژری گاڑیاں کچھ فاصلے پر چھپا کر پارک کیں اور اس کے لیے جلوپارک کی عقبی جانب سڑک کا انتخاب کیا۔ چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود جب میٹنگ کے لیے پہنچے تو انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے عملے کو کہا کہ میٹنگ سے پہلے انہیں مذکورہ جگہ کا معائنہ کروایا جائے، جس کے حوالے سے میٹنگ کال کی گئی ہے۔

اب پٹواریوں کی قسمت خراب، متنازِع جگہ دکھانے کے بعد چیف سیکرٹری صاحب کا عملہ جاوید محمود کو اسی سڑک کے راستے پنڈال کی طرف لے گیا، جہاں پر پٹوایوں کی گاڑیاں چھپا کر پارک کی گئیں تھیں۔ راستے میں کھڑی بیش قیمت گاڑیاں دیکھ کر چیف سیکرٹری نے اپنے پی ایس او کو کہا کہ میں نے تو آپ لوگوں کو نہیں کہا تھا کہ علاقے کے عمائدین علاقہ کو بلایا جائے، تو جواب میں عملے کے ایک رکن نے بتایا کہ جناب یہ گاڑیاں عمائدین علاقہ کی نہیں پٹواریوں کی ہیں جنہیں آپ نے اراضی کے ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا ہوا ہے۔

چیف سیکرٹری صاحب نے بس میٹنگ کی کارروائی مکمل کی اور واپس سیکرٹریٹ اپنے دفتر پہنچ کر سب سے پہلا آرڈر بورڈ آف ریونیو کے حکام کو کیا کہ لاہور کے تمام پٹواریوں کے تبادلے کردیے جائیں۔ اور اگلے دو روز میں لاہور کے تقریبا تمام پٹوایوں کے علاقے بدل کر ان کے تبادلے کردیے گئے۔ اب پٹواری بھی آخر پٹواری ہوتا ہے۔ اس کو اپنی شان میں چیف سیکرٹری کی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور پٹواریوں نے تبادلوں کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے، لاہور کچہری میں ڈی سی او لاہور کے دفتر کے باہر دھرنا دے دیا۔ مزے کی بات یہ کہ جب یہ “بے چارے” پٹواری مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے روزانہ آتے تو ان کی ٹوٹی ہوئی پھٹیچر موٹر سائیکلوں کے انجنوں سے رستے ہوتے آئل کی چکنائی کم و بیش چھہ مہینوں تک لاہور کچہری کی راہ داریوں کی زینت بنی رہی۔

کئی دنوں تک چلنے والی پٹواریوں کی ہڑتال اور دھرنے کے باعث محکمہ مال کے معاملات ٹھپ ہوکر رہ گئے اور تنگ آکر اس وقت کے ڈی سی او لاہور سجاد بھٹہ نے کچھ ڈوپلرز کو شامل کر کے پٹواریوں کو ہڑتال ختم کرنے پر یہ کہہ کر آمادہ کیا کہ ان کے تبادلے روک دیے گئے ہیں۔

اس واقعے کے چند ہی دنوں بعد ایئر پورٹ روڈ پر چیف سیکرٹری کی تیز رفتار گاڑی کے نیچے آکر ایک شخص جاں بحق ہو گیا، اور تین فروری 2010 اس واقعے کی بنا پر او ایس ڈی بنا کر گھر بھجوادیا گیا۔ لیکن پٹواریوں کا کوئی مائی کا لال بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔

اب پٹواریوں کو آخری جھٹکا لگانے کی کوشش سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کی، لیکن پٹواریوں نے کمال مہارت کے ساتھ کمپیوٹرائزڈ کیے گئے ڈیٹا میں لوگوں کے نام اور ولدیت کے ناموں سمیت لینڈ ریکارڈ کے اندراج اس کمال مہارت کے ساتھ اس انداز میں کروائے ہیں، کہ آنے والے کئی سالوں تک ان پٹواریوں اور ان کے بستے کی مدد کے بغیر کچھ کرنا ممکن ہی نہ ہو گا۔ تب تک یہ پٹواری رِٹائر ہو کر گھروں کو جا چکے ہوں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جس طرح سخت ایکشن لے رہے ہیں امید کی جا سکتی ہے کہ اگر وہ کرپشن کے متعلق اپنی سخت گیر پالیسی آگے چلاتے ہوئے سزاوں کو سخت کراونے اور ان پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس “پٹواری” سمیت ملک کو جونکوں کی طرح نچوڑنے والے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے بد عنوان کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).