شرنارتھیوں کا دھرنا باز روحانی بزرگ، پنڈت نہرو اور انوکھی سودے بازی


اس بات چیت کے پانچ چھ روز بعد مسٹر رائے پھر شام کو تشریف لائے۔ (کیونکہ ان کو پہلے روز ہی کہہ دیا گیا تھا، کہ وہ شام کو سات بجے کے بعد تشریف لایا کریں، تاکہ دن کو آنے کی صورت میں میرے کام کا حرج نہ ہو ) جب یہ تشریف لاتے، تو نیچے سے ہی آواز دے دیا کرتے، تاکہ بغیر اطلاح اوپر آنے کی صورت میں میرے کتے بھونک کر ان کا خیر مقدم نہ کریں۔ انہوں نے آواز دی، تو میں نے اوپر تشریف لانے کے لئے کہا۔ پہلے دو تین بار تو ان کے آنے پر کتوں نے بھونک کر ان کا استقبال کیا تھا، مگر اس بار جب یہ اوپر ائے، تو کتوں نے اپنی دمیں ہلا کر ان کا خیرمقدم کیا۔ کیونکہ یہ کتے سمجھ گئے، کہ یہ ہمیشہ کے آنے والے دوستوں میں سے ہیں، یہ غیر نہیں ہیں۔

جب کتے دم ہلاتے ہوئے ان کے پاس گئے، تو میں نے کہا، کہ دیکھئے، کہ یہ کمجنت بھی اب سمجھتے ہیں، کہ آپ ہمارے نیتا اور لیڈر ہیں۔ یہ سن کر مسٹر رائے مسکرا دیے، اور آپ نے پوچھا، کہ کیا پنڈت جی سے مزید کوئی بات چیت ہوئی؟ میں نے جواب دیا، کہ پنڈت نہرو بہت مصروف تھے، اور غیر ممالک کے مہمانوں کے باعث ان کو فرصت نہ تھی۔ صرف تھوڑی دیر ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی۔ میں نے پنڈت جی کو بہت سمجھایا، کہ وہ خوراک اور عمارات کے دونوں محکمے آپ کے سپرد کر دیں، مگر پنڈت جی نہیں مانتے اور وہ محسوس کرتے ہیں، کہ ایسا کرنا ان کا بے اختیار ہونا ہے۔ اور پنڈت جی نے کہا ہے، کہ اگر مسٹر رائے خود پچاس ہزار روپیہ اور اپنی رہائش کے لئے کوٹھی لینا شرنارتھیوں سے غداری سمجھتے ہیں، تو پھر صورت یہ ہے، کہ تمام کناٹ پیلس شرنارتھیوں کو دے دیا جائے۔ اور کناٹ پیلس کے موجودہ دکانداروں اور دفاتر سے کہا جائے گا، وہ شرنارتھیوں کے کوارٹروں میں چلے جائیں، کیونکہ یہ لوگ تیس چالیس برس سے کناٹ پیلس میں رہ چکے ہیں۔ سو شلزم کے اصول کے مطابق اب ان کو شرنارتھیون کے کوارٹروں میں چلے جانا چاہیے، تاکہ کناٹ پیلس میں شرنار تھی بسا دیے جائیں۔

پنڈت جی کی اس ”آفر“ کو سن کر مسٹر رائے مسرت اور غرور کے ساتھ مسکرا دیے، اور آپ نے فرمایا، کہ میں کسی قیمت پر بھی سوائے خوراک اور عمارات کی وزارتوں کے صلح نہیں کر سکتا۔ اگر پنڈت جی شرنارتھیوں کو مطمئن کر نا چاہتے ہیں، تو اس کی صورت صرف ایک ہی ہے، کہ یہ دونوں وزارتیں میرے حوالہ کر دیں، تاکہ میں ملک کے خوراک اور بسانے کے مسائل حل کر دوں۔

مسٹر رائے کے اس جواب پر میں نے ان سے بار بار درخواست کی، کہ آپ پنڈت جی کہ یہ ”آفر“ قبول کر لیں، اور اس کے ساتھ پاس بیٹھے ہوئے دوستوں سے بھی کہا، کہ وہ مسٹر رائے کو پنڈت جی کی اس ”آفر“ کے قبول کرنے پر آمادہ کریں، اور تمام دوستوں نے بھی مسٹر رائے سے کہا، کہ وہ پنڈت جی کی کناٹ پیلس والی ”آفر“ کو منظور کر لیں۔ مگر مسٹر رائے نہیں مانے، اور کھانا کھانے کے بعد یہ کہہ کر واپس چلے گئے، کہ میں پنڈت جی کو دونوں وزارتیں یعنی خوراک اور عمارات کے محکمے چھوڑنے پر آمادہ کروں۔

مسٹر رائے ایک ہفتہ کے بعد پھر تشریف لائے۔ وہی قصہ، کہ یہ قبول کر لو، اور ضد نہ کرو، مگر مسٹر رائے سوائے وزارتوں کے آمادہ نہیں ہوئے۔ آخر میں نے کہا، کہ چونکہ میں درمیان میں پڑا ہوں، میں نہ آپ کی رعایت کرتا ہوں، اور نہ پنڈت جی کی۔ اور بطور ایک غیر جانبدار کے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں، کہ پنڈت جی شرنار تھیوں کو کناٹ پیلس اور کناٹ سرکس کی تمام عمارتوں کے علاوہ چاندنی چوک کا مسجد فتح پوری سے لے کر موتی سینما تک کا ایک طرف کا حصہ دے دیں، اور ایک حصہ یہاں کے دکانداروں کے پاس ہی رہنے دیں۔ یہ دکاندار دہلی کے قدیم باشندے ہیں، ان کو دکانوں سے محروم کرنا مناسب نہیں۔ مسٹر رائے نے میری اس پیشکش کو بھی نامنظور کر دیا، اور آپ نے مجھے فرمایا، کہ میں بھی پاکستان کا رہنے والا ہوں، شرنار تھی ہو کر شرنارتھیوں کے ساتھ غداری کر رہا ہوں۔ میں مسٹر رائے کے سامنے ہاتھ باندھ کر ان سے درخواست کی، کہ وہ اس فیصلہ کو قبول کر لیں، مگر مسٹر رائے نہیں مانے، اور غصہ کی حالت میں چلے گئے۔

دس بارہ روز کے بعد آپ پھر تشریف لائے، اور پھر بات چیت ہوئی، تو میں نے کہا، کہ پنڈت جی سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہو سکی، کیونکہ وہ دہلی سے باہر اور اپنے کام میں بہت مصروف تھے۔ مسٹر رائے یہ کہہ کر چلے گئے، کہ اگر میں کوشش کروں، تو فیصلہ ہو سکتا ہے، اور میں پندت جی کو دونوں وزارتیں مسٹر رائے کے حوالہ کرنے پر آمادہ کر سکتا ہوں۔

چند روز کے بعد پھر تشریف لائے، تو میں غصہ کی حالت میں بیٹھا تھا، اور ملازم کی ایک غلطی پر اسے ڈانٹ رہا تھا۔ میں نے غصہ کی حالت میں ہی ان سے کہا، پنڈت جی سے با ت چیت ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ آپ کی کچھ پرواہ کرنے کے لئے تیار نہیں، جو کرنا ہے، کر لو۔ یہ سن کر مسٹر رائے بھی غصہ سے مغلوب ہو گئے۔ اس روز چاند کی چودہویں تاریخ تھی۔ ( جوں جوں چاند زیادہ بڑھے، پاگلوں کے پاگل پن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور چاند کے کم ہونے کی صورت میں ان کے پاگل پن میں کمی ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہی پاگل پن کو انگریزی زبان میں لیونی سی یعنی چاند کی بیماری کہا جاتا ہے ) آپ نے غصہ کی حالت میں فرمایا، کہ اچھا اگر یہ صورت ہے، اور پنڈت جی ہمارے مطالبات منظور کرنے کے لئے تیار نہیں، تو پھر میں زلزلہ اور سیلاب لا کر دنیا کو تباہ کر دوں گا۔

آپ کے یہ الفاظ سن کر قریب بیٹھے ہوئے تمام دوست قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ مگر میں نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، رائے صاحب ایسا نہ کیجئے، زلزلہ اور سیلاب کی صورت میں تمام شرنار تھی تباہ اور غرق ہو جائیں گے۔ مسٹر رائے نے جواب دیا، چونکہ شرنار تھی تکلیف میں ہیں، تمام دنیا کو تباہ ہو جانا چاہیے، اور کوئی پرواہ نہیں، اگر دنیا کے ساتھ شرنارتھی تباہ ہو جائیں۔ بہت مشکل کے ساتھ مسٹر رائے کے غصہ کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا گیا، کہ اچھا پنڈت جی سے پھر بات جیت کرتے ہیں۔ رائے صاحب اپنا ٹی۔ اے یعنی سفر خرچ کا ایک روپیہ لے کر اور کھانا کھا کر چلے گئے۔

یہ سلسلہ ڈیڑھ دو سال کے قریب جاری رہا۔ آپ پچھلی فروری میں تشریف لائے، تو میں پاکستا ن گیا ہوا تھا۔ وہاں سے واپس آیا، تو ڈیرہ چلا گیا۔ معلوم ہوا، کہ آپ اب بھی کبھی کبھی میرے مکان پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اور جب آپ کو معلوم ہوتا ہے، کہ میں ڈیرہ دون میں ہوں، تو گلی اور محلہ والوں سے شکوہ کرتے ہیں، کہ میں شرنارتھیوں کا فیصلہ پنڈت جی نہرو سے کرائے بغیر ڈیرہ دون چلا گیا، اور میں نے شرنارتھیو ں کے متعلق اپنا فرض ادا کیا۔

کتاب سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon