رکن سندھ اسمبلی تنزیلہ حبیب شیدی کا انٹرویو


مقبول ترین تاریخی نعرے ’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈے سوں‘ کے خالق ہوشو شیدی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی تنزیلہ شیدی، اپنی قوم کی پہلی خاتون ہیں، جو رُکن سندھ اسمبلی ہیں۔ جنگ آزادی کے جنگ جو امر روپلو کوہلی کی برادری کی کرشنا کوہلی اور جرنیل ہوشو شیدی کے قبیلے کی اس خاتون کی ایوانوں تک رسائی پر، عوامی حلقوں میں پیپلز پارٹی کے اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔

تنزیلہ حبیب سے ملاقات کے دوران ہونے والی گفت گو ”ہم سب ” کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
ہم سب: اپنی ابتدائی زندگی کے حوالے سے کچھ بتائیں گی؟
تنزیلہ حیبیب: میرا تعلق متوسط فیملی سے ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا۔ میں نے بحریہ فاونڈیشن کالج سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ایک نجی بنک میں کام کیا۔

ہم سب: سیاست میں آنا کیسے ہوا؟
تنزیلہ حیبیب: میرے والد صاحب اور بڑے بھائی پاکستان پیپلیز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ گھر کے ماحول کی وجہ سے میری بھی بھٹو صاحب اور محترمہ سے جذباتی و دلی وابستگی رہی ہے۔ میں نے مختلف جابز کی ہیں، ان کا تجربہ میرے آج بھی کام آ رہا ہے۔

ہم سب: بھٹو ازم کیا ہے؟
تنزیلہ حیبیب: عوام کو اس کے حقوق دلانا۔ نچلی سطح سے عوام کے لیڈر تلاش کرنا۔

ہم سب: کیا آج کی پیپلز پارٹی بھٹو ازم پر پورا اترتی ہے؟
تنزیلہ حیبیب: آپ جس سے بات کر رہی ہیں، میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ عوام کی نمایندہ ہوں۔ یہی بھٹو اِزم ہے۔

ہم سب: آپ نے مردانہ معاشرے میں کیسے جگہ بنائی؟
تنزیلہ حیبیب: ہرعورت کو اس معاشرے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرا خواتین سے صرف اتنا کہنا ہے، کہ عورت اپنے آپ کو انسان سمجھے۔ جب تک خاتون اپنی اہمیت نہیں جانے گی، تب تک ہر ایک اس کے حق پر ڈاکا مارے گا۔ عورت کو مضبوط ہونا ہو گا۔

ہم سب: جب آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا، تو کیا خاندان کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟
تنزیلہ حیبیب: ہمارے یہاں عورت کو رکاوٹوں کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ میری والدہ نے مجھے بہت اسپورٹ کیا۔ والدہ کی وجہ سے بھائی اور بہنیں بھی معاون ثابت ہوئیں۔ پھر اللہ کے کرم سے شوہر بھی بہت اچھے ملے۔ سسرال نے بھی بہت ساتھ دیا۔

ہم سب: آپ کی جماعت کی شناخت ہی خاتون ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں خواتین کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ قانون سازی کے معاملے میں آپ کی جماعت میں خواتین کا کیا کردار ہے؟
تنزیلہ حبیب: بہت جامِع۔ ہمارے یہاں ہر نکتے پر خواتین سے رائے مشورہ لیا جاتا ہے اور ہماری آرا کو مقدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ میری جماعت خواتین کا بہت احترام کرتی ہے۔

ہم سب: آپ خود تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں، جب کہ آپ کی والدہ بھی اسکول ٹیچر تھیں۔ سندھ کا نظام تعلیم بہت ناقص ہے۔ بہتری کیسے ممکن ہے؟
تنزیلہ حیبیب: اب تو پہلے سے بہتری آئی ہے، مگر یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں ابھی بھی بہت کام کرنا ہیں۔ ہمیں باقاعدہ اساتذہ بھرتی کرنا ہوں گے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں جو کچھ نہیں ہے وہ استاد ہے۔ ہمیں ٹیچر ٹرنینگ پر کام کرنا ہو گا۔ پڑھانا ایک مکمل آرٹ ہے۔ بچوں کی نفسیات سمجھ کر تعلیم دینا ہو گی۔ اس کے لیے اساتدہ کی بھی تربییت کی ضرورت ہے۔ شاید ٹیچرز مجھ سے ناراض ہو جائیں، مگر میں سمجھتی ہوں کہ اساتدہ کی دو ماہ کی تعطیل کم ہونی چاہیے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بچوں کی چھٹیوں کے دوران ٹیچرز کی تربیتی نشتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

ہم سب: آپ کا تعلق ضلع بدین سے ہے۔ آپ سب سے پہلے اپنے ضلِع کا کون سا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہیں؟
تنزیلہ حیبیب: ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ سمندر ہماری زمین کھا رہا ہے۔ یہ بدین والوں کے لیے سب سے پریشان کن بات ہے، تو سب سے پہلے اس کا حل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی میری خواہش ہے کہ میں شیدی قبیلے کا سر فخر سے بلند کروں۔

ہم سب: لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا، اب ”تبدیلی ” آ گئی۔ ایسا کیوں ممکن ہوا؟
تنزیلہ حیبیب: دھاندلی کا شاخسانہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جہاں سے ہم جیتے بھی ہیں، وہاں بھی ری کاونٹنگ کرائی جائے۔

ہم سب: وہ آپ کے چیئرمن صاحب کے ساتھ لیاری میں جس قسم کا استقبال ہوا، وہ کیا تھا؟
تنزیلہ حیبیب: چار، چھہ لوگوں کی بدتمیزیوں سے لیڈر گبھرایا نہیں کرتے ہیں۔

ہم سب: شیدی قبیلہ اپنے ایک مخصوص طریقے خوشیاں مناتا ہے۔ جب آپ رکن سندھ اسمبلی بنیں، تو آپ کے قبیلے کے کیا تاثرات تھے؟
تنزیلہ حیبیب: ہم سب کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، یہ ہماری خوشی تھی تو اس کا رنگ ہی الگ تھا۔ تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا۔ قبائلی رقص کی محفلیں سجائی گئیں۔

ہم سب: آپ کے والد صاحب رائٹر تھے۔ کیا آپ نے کبھی کچھ لکھا؟
تنزیلہ حیبیب: کوشش ضرور کی، مگر کبھی چھپوایا نہیں۔
ہم سب: شکریہ تنزیلہ آپ نے اپنا وقت دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).