زندگی کے خلاف مظاہرے میں شرکت


غریب کی زندگی کالی چھپکلی کے مانند ہوتی ہے، کالی چھپکلی جو مر کر بھی دیوار سے چپکی رہتی ہے، ہمیں ڈراتی ہے۔
”صاب مجھے جاگیرداروں سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں ان کے خلاف مظاہرہ نہیں کرپاتا، اور پھر جاگیردار دیوتا سمان ہوتا ہے، جسے پوجا جاتا ہے۔ دیوتاوں کی طرح اس کے قدموں میں لکشمی ہوتی ہے، اور لکشمی زندگی ہے۔ لکشمی دیوی ہے۔ یہ دیوی جب جاتی ہے تو جیون سانس آزادی کے بدلے میں دے جاتی ہے۔ یونھی ہوتا آیا ہے، یونھی چلتا رہے گا، صاب۔ میں بھی لکشمی کا عاشق ہوں۔ کیا تم نہیں ہو، صاب‘‘؟

یہ بات ایک مریل جوان نے مظاہرے کے دوران مجھ سے کہی؛ یہ کہتے وہ مریل جوان کھانستے کھانستے غوطے میں چلا گیا۔ اسے گھسیٹ کر پرے کر دیا گیا۔ ایک مریل بڈھا میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہی بکنے لگا۔
”حجور۔ لکشمی اس طوائف جیسی ہے، جسے دلال نے پکار کر کہا، تمھارا یار آیا ہے، تو وہ بول اٹھی کون سا یار؟ میرے تو ہجاروں یار ہیں، لیکن حجور لکشمی کس کس کی بانہوں میں جائے گی‘‘۔

مریل بڈھا بولتا چلا گیا۔
”لکشمی کے تو پریمی بہت جیادہ ہیں نا! ۔ جو بھی ہو حجور، لکشمی سب کو مل جائے، بس نا مرد کو کبھی نہ ملے‘‘۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے، ایک نوجوان ہیجڑے نے قدرے غصے سے مداخلت کرتے کہا۔
”کیوں نہ ملے؟ کیا ہم اپنا علاج لکشمی سے نہ کریں گے‘‘؟
”لو حجور۔ ایسے ہی ایک کمینے کی وجہ سے میری بِٹیا رانی گھر واپس آ کر بیٹھ گئی ہے‘‘۔

مریل بڈھے کی آواز شور میں دبنے لگی۔ اتنے میں مظاہرے کی قیادت کرنے والا، مائیک تھام کر بول اٹھا۔
”ہمیں لکشمی چاہیے۔ بھگوان نہیں۔ کیوں کہ لکشمی دیوی ہے، اور دیوی سب کچھ ہے‘‘۔
بھِیڑ میں سے کوئی بولا۔
”ناستک ہے، سالا‘‘۔

ناستک کا بیان جاری رہا۔
”لکشمی دیوی سنو! جن پر تم مہربان ہو، وہ جاگیردار، تمھاری طاقت سے ہماری بیٹیوں کو زبر دستی اُٹھا لیتے ہیں۔ عجتیں کھراب کرتے ہیں۔ ان پر ظلم ڈھانے کے بعد انھیں گندی نالی میں پھینک دیتے ہیں۔ ہے لکشمی سنو! ۔ پھر ہماری یہی نا چار بیٹیاں، تمھاری چاہ میں کوٹھوں کی گالی بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی نہیں، تن فروخت کر کر کے جو کماتی ہیں، اس میں سے بھڑوا، اپنے حصے سے زیادہ کاٹ لیتا ہے۔ افسوس یہ مجبور سیاہ کار بیٹیاں، پھر اپنے آپ کو خرید نہیں سکتیں؛ کیوں کہ وہ بِکنے کے لیے ہیں‘‘۔

ناستک کا گرم بھاشن جاری تھا، کوئی چلایا۔
”ہمیں چِنتا ہے، کچھ دَلوں نے ہماری بیٹیوں کے مردے کے ساتھ بد فعلی کی ہے۔ ۔ ۔ ہمیں اُس کا لگان بھی چاہیے‘‘۔

”ساتھیو! آج جیون کے خلاف دھرنا اس لیے دیا جا رہا ہے۔ کہ۔ کہ کسی حرام جادے نے میری بیٹی کو ماہواری میں زبر دستی کرنے کی کوشش میں مار ڈالا۔ برادری والوں نے اسے دفنا دیا، لیکن رات کو کسی حرام جادے نے قبر سے نکال کر اس کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘

ناستک رونے لگا، سسکیوں کے بیچ میں بولا۔
”اور پھر جاتے سمے کفن بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ کچھ نہیں تو میری بیٹی کو واپس تو دفن کرتا، میں اتنا بے غیرت نہیں کہ اب اس کا معاوضہ مانگوں۔ میری تو ایک ہی بیٹی تھی، لیکن آپ سب کی تو اور بھی بیٹیاں ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ دھاڑیں مارنے لگا۔

پاس کھڑے دوسرے لیڈر نے اس سے مائیک لیتے ہوئے دھرنے والوں کو مخاطب کر کے کہا۔
”آج کے بعد آپ سبھی ناستک برادری کے لیے ہمارے شمشان گھاٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ آپ سب اپنی بیٹیوں کو ہمارے شمشان گھاٹ میں جلانے کے لیے لایا کریں گے‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).