مریض کے لواحقین چین اور امریکہ میں بھی ڈاکٹر کو نہیں بخشتے


رات کے دو بجے استقبالیہ پہ لگی کمرا نمبر 56 کی بیل مسلسل بجے جا رہی تھی۔ نرس جلدی جلدی جنرل وارڈ میں داخل مریض کو فارغ کر کے کمرے کی طرف بھاگی، جہاں سے ایمرجنسی بیل کی کال دی گئی تھی، نرس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا مریض کے ساتھ رکے ہوئے تیمار دار نے نرس کے ساتھ انتہائی بد تمیزی اور غصّے سے پیش آتے ہوئے، اس کی شکایت اعلٰی حکام تک کرنے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی نا زیبا الفاظ کا استعمال کیا، نرس نے معذرت کرتے ہوئے اس سے مدعا پوچھا تو فرمایا کہ مریض کی ڈرپ ختم ہو گئی ہے۔ مریض اور تیماردار کی الفاظ کی بو چھاڑ جاری رہی جب کہ نرس اسی خلوص اور ذمہ داری کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے اپنا کام ختم کر کے وہاں سے آ گئی۔

یہ کسی ایک اسپتال کی کہانی نہیں یا کسی ایک مریض کی جانب سے کیا گیا ہتک آمیز سلوک نہیں بلکہ بیش تر اسپتالوں میں آنے والے لوگوں کا یہی احوال ہے۔ مریض اور ان کے رشتے داروں کی جانب سے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر طبی عملے کو اکثر اس طرح کی توہین آمیز صورت احوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے با وجود مسیحائی کے شعبے سے وابستہ افراد پوری ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتے ہیں۔

کسی زمانے میں ڈاکٹر کے شعبے سے وابستہ افراد کو بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور تمام پروفیشنز میں سب سے زیادہ معتبر جانا جاتا تھا کیوں کہ اللہ کے بعد ڈاکٹر ہی وہ ہستی ہوتی ہے، جس سے کسی بھی بیمار شخص کی ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر کے ساتھ مدد کرتا دیگر میڈیکل اسٹاف نرس، وارڈ بوائے وغیرہ کی بھی بہت عزت کی جاتی تھی، کیوں کہ یہی لوگ ڈاکٹرز کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مریض کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

اب جیسے جیسے میڈیکل کے شعبے میں مزید ترقی ہوتی گئی، ڈاکٹرز اور مریض کے رشتے میں بھی ابہام آتے گئے۔ ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹے اسپتال میں مریض اور ان کے تیمار داردوں کی جانب سے تشدد اور غنڈہ گردی جیسے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ اس منفی رویے کی بہت سی وجوہ ہیں، مثلاً لواحقین کا مرض کی شدت نہ جاننا اور ساری توقعات ڈاکٹرز سے رکھنا۔ اپنے مریض پر سب سے زیادہ توجہ چاہنا، جب کہ ڈاکٹر یا دیگر طبی عملے کی ذمہ داری میں اسپتال کے تمام مریض شامل ہوتے ہیں۔ اکثر کیس خراب کر کے اسپتال آنا پھر یہ توقع رکھنا کہ یہاں سے مریض صحت مند واپس جائے۔

خاص کر ڈیلیوری کیسز میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے، کہ لوگ خوشی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ ایک طرف ننھے مہمان کی آمد کی خوشی تو دوسری جانب خاتون مریض کی صحت یابی کی فکر اور ایسے میں خدانخواستہ وہ جان بر نہ ہو سکے، تو بس اسپتال میں قیامت برپا کر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وقت بے وقت مریض سے ملاقات کے لیے آنا اور اسپتال کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنا اور منع کرنے پر میڈیکل اسٹاف کے ساتھ ناروا سلوک کرنا۔ اکثر او پی ڈیز میں انتظار میں بیٹھے زیادہ تر مریض یا ان کے ساتھ آئے ہوئے تیمار دار یہی چاہتے ہیں، کہ سب سے پہلے ڈاکٹر سے ان کی ملاقات کرا دی جائے۔ ساتھ ہی اسپتال میں چلنے والی سفارش یا وی آئی پی کلچر نے بھی مسیحائی کے شعبے کو بری طرح بد نام کیا ہے۔

اس کے برعکس بہت دفعہ ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی جانب سے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس وجہ سے اسپتال میں بد نظمی پیدا ہوتی ہے، مثلاً مریض کو صحیح طرح گائیڈ نہ کرنا، ایک دن میں لا تعداد مریض دیکھنا لیکن ہر مریض پر سرسری توجہ دینا، بڑے بڑے سرجنز کے کئی کئی دنوں تک اپائنٹمنٹ نہ ملنا، سرکاری اسپتالوں میں الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی ا اسکین یا وینٹیلیٹر کے لیے کئی کئی دن انتظار کرنا اور دھکے کھانا۔ بار بار بلانے پر بھی نرس یا دیگر اسٹاف کا حاضر نہ ہونا یا مریض پر توجہ نہ دینا۔ ڈاکٹرز کا مریض کو مطمئن کرنے میں ناکام ہونا۔

مندرجہ بالا تمام وجوہات کے باعث مریض اور ڈاکٹرز یا طبی عملے کے درمیان نا چاقیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو کسی بھی بڑے فساد کا باعث بنتی ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ چین میں 17 فروری 2014 کو ایک ای این ٹی اسپشلسٹ کو اس لیے قتل کر دیا کہ تیمار داروں کے مطابق ان کے مریض کی صحیح دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ امریکا کے شہر بوسٹن میں کے ایک بڑے اسپتال کے ڈائریکٹر ڈیوڈ سن کو اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اناسی سالہ شخص کی ہارٹ سرجری کی تھی اور وہ جان بر نہیں ہو سکا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان فطری طور پر جذباتی واقع ہوا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جو اسپتال جاتا ہے وہ بھرپور توجہ اور پوری امید کے ساتھ کامیابی چاہتا ہے۔ ایسے میں کچھ اس کی توقعات کے بر عکس ہو جائے تو مزاج کی خرابی عین ممکن ہو جاتی ہے، لیکن پھر بھی مریض کے ساتھ آئے ہوئے تیمار دار وں کو عقل مندی اور ہوش مندی سے کام لینا چاہیے تا کہ ان کے مریض کو بھرپور توجہ مل سکے۔ جب کہ ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کو اسپتال میں آنے والے ہر مریض کی فریاد کو پوری توجہ دینا چاہیے اور ان کی نفسیات کو سمجھنا چاہیے تا کہ عملے سمیت اسپتال کی املاک بھی محفوظ رہیں۔ حکومت کی اس سلسلے میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار پر غور فرمائیں اور تمام میڈیکل سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).