لاٹھی، ہتھ کڑیاں اور حوالات


چار سو سے زیادہ لوگ پاناما میں پکڑے گئے۔ وقت نواز شریف پر ضائع کیا گیا۔ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا؛ وہ بھی مرا ہوا۔ شیر لندن سے گرفتاری دینے آ گیا، ساتھ بیٹی کو بھی لے آیا۔ بیمار تو پڑا اسپتال داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ دو سال سے مقدمہ چل رہا ہے، جس کو چور ثابت کرنا تھا، وہ ہیرو بنتا جا رہا ہے۔ چوری کیے پیسے واپس کیا آنے تھے، کروڑوں روپے مقدمے پر خرچ ہو گئے۔ اس حساب سے باقی چار سو لوگوں کو پکڑا تو اربوں روپے مقدمات پر خرچ ہو جائیں گے۔ معیشت پہلے ہی بھینسیں بیچ بیچ کر چلائی جا رہی ہے۔ ڈالر بڑھ گیا ہے، حالانکہ اسحق ڈالر بھی میدان سے بھاگ چکا ہے اور سرکار اس کا پیچھا کرتی پھرتی ہے۔ وہ قابو میں نہیں آ رہا۔ اس کی بھی دو کنال زمین پکڑ کر فرض پورا کر لیا گیا ہے۔

ادھر جعلی بنک اکاونٹ پکڑے گئے ہیں۔ فالودہ فروش ارب پتی نکل آیا۔ ایک مردے کے اکاونٹ سے بھی اربوں نکلے ہیں۔ ادھر چیف جسٹس نے کہہ دیا ہے مردے قبروں سے نکال کر ٹرائل کریں گے۔ اس دوران اکاونٹ کھلوانے والے پانچ افرد ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اکاونٹ کیس کے اصلی مجرم وہی تھے۔ کچھ دن پہلے کہا جارہا تھا اکاونٹ کیس کا اصل مجرم زرداری اور اس کی بہن ہے۔ ایان علی کو بھی کیس رنگین بنانے کے لئے ڈالا گیا۔ میڈیا میں اس کا بھی بڑا چرچا ہوا۔ حکومت اور نیب کے ہاتھ کیا آیا۔ نہ نواز شریف کے فلیٹ آئے نہ زرداری سے لوٹی دولت آئی۔ پاکستان کے حصے بد نامی اور پاکستانیوں کے حصے مہنگائی اور بے چینی آئی۔

چھہ ماہ سے آشیانہ اسکینڈل پبلک کی تفریح طبع کا باعث بنا ہوا ہے۔ پہلے احد چیمہ پکڑے گئے۔ بڑی کامیابی حاصل کی۔ فواد حسن فواد پکڑے گئے۔ سرکاری گواہ بن گئے۔ پھر شہباز شریف پکڑے گئے۔ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔سلاخوں کو گھورتے رہتے ہیں۔ کوئی سراغ نہیں لگ رہا۔ پکا ہاتھ نہیں پڑ رہا۔ کیا بنے گا۔ شہباز شریف دن رات عوام کی خدمت کرتا تھا، اسپیڈ کے لئے مشہور تھا۔ لاہور میں میٹرو چلا دی۔ سڑکوں اور پلوں کا جال بچھا دیا۔ دانش اسکول بنا دیے۔ بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کو تعلیم پر لگا دیا۔ مگر مزاج میں انکساری کی بجائے رعونت آتی گئی۔ رعونت اللہ کو پسند نہیں۔ جیل کی سلاخیں شائد انھیں سمجھا پائیں، کہ ان میں عاجزی آ جائے۔ ابھی انھوں نے اپوزیشن سیکھنا شروع کی تھی۔ ان کو اپوزیشن کرنا آتی نہیں۔ ابھی وہ اس مرحلے کے ابتدایے پر تھے۔ نیب نے انھیں لیڈر بنا دینا ہے۔

شہباز ہی نہیں نیب نے تو استادوں کو نہیں چھوڑا۔ ان کو بھی ہتھ کڑیاں لگا دیں۔ وہ بھاگنے والے تو نہیں تھے۔ کیا ان کے باپ نہیں ہیں۔ یہ طریقہ تو سو سال پہلے انگریز کا تھا۔ وہ تو انگریز سرکار کی مخالفت کرنے والوں کو علی الاعلان بتانا ضروری سمجھتے تھے کہ دیکھو اگر سرکار کی مخالفت کرو گے تو یہی انجام ہو گا۔ شہباز ابھی تو اپوزیشن کرنا سیکھ رے تھے۔ ایک لحاظ سے تو یہی درست ہے۔ برائی کو جڑ پکڑنے ہی نہ دو۔ نواز شریف کو شروع میں ہی تگڑا سبق سکھایا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ لیکن یہاں محنت کرنے کی عادت ہے نہیں۔ سیکھے سکھائے شوکت عزیز اور معین قریشی مل جاتے ہیں۔

اصل بات تو پاکستان کو دیے گئے قرضوں کی وصولی کی ہوتی ہے۔ قرض خواہ ایسا انتظام کرتے ہیں کہ قرض لینے سے انکار کرنے والا بندہ اقتدار میں نہ آئے اور پھر ایسے بندے کا انتظام کیا جائے کہ قرض کی واپسی بھی ہو جائے۔ یہی قرض لینے دینے کے عمل میں پاکستان کی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔

کسی زمانے قرض مخالف یا ترقی پسند سیاستدانوں کے لئے پولیس کافی ہوتی تھی۔ جیسے جیسے سیاستدان تگڑے اور پولیس کم زور ہوتی گئی، ایک ایسی فورس کی ضرورت پڑی جو ریاست کے مخالفوں کو قانون کے اندر رہ کر سبق سکھا سکے۔ اس مقصد کے لئے ایک اندھا اور بہرا قانون بنایا گیا، جسے نیب کا قانون کہتے ہیں۔ اس قانون کی خوبی ہے کہ اس کے تحت سزا کم ہی لوگوں کو ہوتی ہے۔ سزا دینا اس قانون کا مقصد بھی نہ تھا۔ اس کا مقصد سیاستدانوں کو سیدھا کرنا تھا۔ یہ مقصد نوے دن کی تفتیش پھر جسمانی ریمانڈ اور اس میں مزید توسیع سے حاصل کر لیا جاتا ہے۔ بعد میں بڑی عدالتوں کے سادہ اور عام سے قوانین ان کو ریلیف دے بھی دیں، تو فرق نہیں پڑتا۔ ان کی اصل اکڑ فوں تو تفتیش میں ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی ہمارا مقصد ہوتا ہے۔ جس دن ہم ہتھ کڑیاں، ڈنڈے حوالات اور چور تھانیدار بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ہم ایک مہذب قوم بن جائیں گے۔ فی الحال مہذب قوم بننے کی نہ ہمیں ضرورت ہے نہ جلدی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).