یتیم مملکت کے یتیم وزیر اعظم کے نام، ایک یتیم پاکستانی کا خط



عالی مرتبت جناب عمران خان صاحب
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
آداب!
ڈھیروں دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ بارگاہِ ناز میں کچھ معروضات گوش گزار کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

جناب وزیر اعظم!
بطور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان قیادت کے جس مقام پر آج آپ کھڑے ہیں، وہاں آپ کو قوم کے ہیرو کا تشخص حاصل ہو چکا ہے، آپ کو یہ بات ہر لمحہ یاد رکھنی ہو گی کہ قوم اپنے ہیرو کو ایک معجزاتی اور طلسماتی انسان تصور کیا کرتی ہے، وہ اس کو ہر حالت میں کامیاب دیکھنا پسند کرتی ہے،ہیرو خواہ کتنا بھی غیرمعمولی ہو، وہ اصل میں ایک انسان ہی ہوتا ہے، تما م انسانوں کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا تناسب اس کی ذات میں بھی موجود ہوتا ہے۔ بقول یونانی مفکر ”ہومر” ایک ہیرو کے حصول مقاصد کی جنگ یا جدوجہد کے زمانے میں صرف اس کی جرأت آزمائی کا پہلو ہی زیادہ نمایاں رہا کرتا ہے۔ اس کی زندگی کے باقی پہلوؤں کو نہیں دیکھا جاتا مگر ایک ہیرو جب کامیاب ہو جاتا ہے یا اقتدار میں آ جاتا ہے تو اس کی مجموعی اہلیت کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کے تمام پہلو عملی طور پر ایک ایک کر کے سامنے آنے لگ جاتے ہیں۔

جناب وزیر اعظم!
تاریخ عالم میں حکمرانی کے ہر عہد اور ہر بڑے ہیرو کی جبلت میں کامیابی کی صرف ایک دو ہی بڑی خصوصیات پائی گئی ہیں، یعنی اگر وہ بہادر تھا تو معاملہ فہم نہیں تھا اور اگر معاملہ فہم تھا تو شجاع نہیں تھا، لہذا انسانی تاریخ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ہیرو بھی ہر فن مولا ہرگز نہیں ہوتا۔ ہر مقتدر ہیرو کو اپنی کامیاب ذاتی صلاحیتوں کی خصوصیات کا ادراک رکھتے ہوئے بھی حکمرانی کی کامیابی کے لیے زندگی کے اور حکمرانی کے ہر شعبے کی کامیاب صلاحیتوں کی خصوصیات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سقراط کے بقول ہر دانش مند ہیرو کو ایک جدلیاتی انداز فکر اختیار کرنا پڑتا ہے۔

جناب وزیر اعظم!
اس کے لیے اسے ایک مجلس مشاورت تشکیل دینی پڑتی ہے، سقراط کہتا ہے کہ جو ہیرو جتنا زیادہ بحث و مشاورت کا ملکہ رکھتا ہو گا، وہ اتنا زیادہ ہی اپنے معاملات افعال میں کامیاب ہوگا، ہر ہیرو کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حلقۂ احباب اور مشیروں میں عقل و تدبر اور فہم و فراست سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شامل رکھے۔ ایسے لوگ جو اپنے اپنے میدان فہم و عمل کے با صلاحیت لوگ ہوں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلجھے ہوئے ہوں اور منجھے ہوئے ہوں، تجربہ کار ہوں، زمانے کی سرد و گرم سے آشنا ہوں۔ معاملہ فہم ہوں، فرض شناس ہوں، وفادار ہوں، دور اندیش ہوں، ٹھہرے ہوئے لوگ ہوں۔

جناب وزیر اعظم!
سقراط کے اقوال کے علاوہ ہر ہیرو کے ذاتی دوست احباب کا بھی حلقہ ہوتا ہے جو ہر مقتدر ہیرو کے اقتدار پر اثر انداز ہوا کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہیرو کے دوست احباب کا حلقہ انتہائی اعلیٰ پائے کے انسانوں کا حلقہ ہو جو لالچ اور طمع سے پاک ہوں۔ جو اپنے ہیرو کی عزت و نیک نامی کے ضامن ہوں، اس ذاتی حلقے کے احباب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ ظرف کے بے لوث لوگ ہوں اور فکر و دانش کے رسیا ہوں۔ اس طریقے سے ایک ہیرو کی مجلس مشاورت اور اس کے دوست احباب کا یہی وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ ہیرو کے اقتدار کے ہر شعبے کی نمایندگی کرتے ہوئے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کریں۔

جناب وزیر اعظم!
ایک زمانہ ہر حکمران ہیرو کے اقتدار برائے اقتدار کا زمانہ ہوتا ہے، جس میں ہر مقتدر ہیرو کو اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ہر ظلم روا رکھنا ہوتا تھا، ہر دھوکا ہر فریب جائز خیال کیا جاتا تھا، لہذا ان زمانوں میں ہر مقتدر ہیرو کو (جس کو ”پرنس” کہا جاتا تھا) ایک ”میکیاولی” کی ضرورت ہوتی تھی، ایک ”چانکیا” کی ضرورت ہوتی تھی، تاریخ انسانی کے تمام مظالم و شقاوت اور سفاکی کو اگر ایک جگہ مرتب کیا جائے تو وہ دانش ”میکیاولی” بن جائے گی۔ اسی طرح تاریخ عالم میں دھوکے، فریب، جعل سازی، عیاری، مکاری، ٹھگی اور بے رحمی کو اگر ایک ساتھ ترتیب دے دیا جائے تو وہ فکر ”چانکیا ازم” بن جائے گی۔ خدا کا شکر ہے کہ بنی نوع انسان کی طویل جدوجہد حریت سے آج کے اقتدار کی ماہیت تبدیل ہو چکی ہے۔ آج کا ہیرو ”پرنس” نہیں، عوام کی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کو کسی میکیاولی اور چانکیا فلسفے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

جناب وزیر اعظم!
ہر حکمران ہیرو اپنے اقتدار کا مرکزی انسان ہوتا ہے لہذا اقتدار کی کامرانیوں کا بھی وہی محور ہوتا ہے اور دوسری شکل میں گردشوں کا بھی سب سے زیادہ وہی شکار ہوا کرتا ہے، حکمران قائدین کو ہر دن نئے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے، امور مملکت کے بنیادی چیلنج وسیع پیمانے پر سامنے آیا کرتے ہیں جو قیادت بردار ہیرو کی قوت برداشت اور اعصاب کا امتحان کرتے ہیں، حکمران ہیرو کی ترجیحات اور پسند نا پسند کو واضح کرتے ہیں، ایک ہیرو قائد کا تشخص اس کے اقتدار کے بنیادی نظریات کا ایک غیر متبدل لائحہ عمل ہوتا ہے جو اس کے مصمم ارادوں کا پیکر ہوتا ہے، جس کو اسے عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے، اس کو ایک سرکش اور نا موافق ماحول میں دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔

جناب وزیر اعظم!
قیادت کے نورتنوں میں جن کو آج کل مشیر وزیر کہا جاتا ہے، ہر سطح اور ہر طبقے کے خیال و فکر کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو حالات کے دباؤ اور مسائل کی کثرت کی بنا پر قیادت کے لیے ناگزیر بنتے چلے جاتے ہیں، جو رفتہ رفتہ قیادت کے کان، آنکھیں اور دماغ بن جاتے ہیں، یہ مشیر اگر اعلیٰ اوصاف کے بلند ہمت لوگ ہوں تو قیادت کی سربلندی کے مظہر ہوتے ہیں، یہ اگر ابن الوقت یا سورج مکھی کے پھول ہوں تو قیادت کے مقام کو دھندلا دیا کرتے ہیں۔

جناب وزیر اعظم!
قیادت کے منصب کے فلسفے کے بارے میں، مَیں آپ کو چند قدیم اور جدید زمانے کے دانش وروں کے اقوال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، ہندوستان کے قدیم عہد کا دانش مند ”ہرمن ہیسے” اپنی ساورتھ نام کی پشتک میں ایک مشیر ”کاما سوامی” کے مشورے کا ذکر کرتا ہے، ”کاما سوامی” اپنے ہیرو کو گوتم بدھ کے امن آتشی کی عبادت اور لیاقت کے فلسفے کے خلاف مشورہ دیتا ہے کہ گیان دھیان کا کام کوئی فائدہ بخش کام نہیں ہے، زندگی بھاؤ تاؤ کا نام ہے، مال کماؤ اور بڑے آدمی بن جاؤ، اس طریقے سے ”کاما سوامی” اپنے ہیرو کو دیش بھگتی کے منصب سے گم راہ کر دیتا ہے جو ایک عوامی ہیرو کے شایان شان نہیں ہوتا۔

جناب وزیر اعظم!
اس کے برعکس قدیم یونانی مفکر ”ہومر”اپنے مرکزی ہیرو ”اوڈیسیس”کو مشورہ دیتا ہے کہ لوگ اپنے قائد یا ہیرو کو ہمیشہ کامیابی کا مظہر خیال کرتے ہیں، وہ اس کی ناکامی کی تاب نہیں لا سکتے،”اوڈیسیس” اس کے مشورے پر عمل کر کے کامیاب واپس آتا ہے، ثابت ہوا کہ اچھا مشورہ کامیابی کا سہرا ہوتا ہے، اس طریقے سے ”جارج برنارڈشا” اپنے ڈرامے ”آرمزاینڈ مین”میں دو ہیرو حکمران کا ذکر کرتا ہے، ایک ہیروکے مشیر اس کو ہر حالت میں جنگ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، دوسرے کے مشیر اس کو جنگ سے باز رکھ کر تباہی سے محفوظ کر دیتے ہیں، اسی طریقے سے قدیم طین کا مرد دانا ”کنفیوشس” اپنے بادشاہ کو مشورہ دیتا ہے کہ موتیوں کو پرکھنے کے لیے جوہریوں تلاش کرتے ہو، عمدہ گھوڑوں کی نسلیں پرکھنے کے لیے ماہرین رکھتے ہو، اپنی بیماری کے علاج کے لیے اعلیٰ حکیموں کو تلاش کرتے ہو، مگر تم اپنے مشیر اور وزیر بنانے میں کوئی امتحان ہی نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وقت کے نام ور خوشامدی اور سازشی تیرے درباری بن گئے ہیں، ارسطو نے سکندر اعظم کو ایک ہی سبق دیا تھا کہ ہر کام کرنا پہلے خود شروع کر دو، تمام قوم اور فوج تمھاری پیروی کرنے لگ جائیں گی۔

جناب وزیر اعظم!
تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ چاہے بادشاہت ہو یا جمہوری حکومت، ہر حکمران ہیرو کی کامیابی کا راز اس کے مشیروں کے اجتماعی مشوروں پر مبنی ہوتا ہے اور یہ بھی تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ کامیابی کا سہرا، مشیر اپنے سر باندھا کرتے ہیں اور ناکامی صرف قائد اور ہیرو کے کھاتے میں آ جایا کرتی ہے۔ آج قدرت نے پہلی اقتدار آپ کے ہاتھ میں رکھا ہے، آپ کو یہ اقتدار 22 برس کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں ملا ہے، آپ کو یہ قتدار ”مستقل مزاجی کی سیاست” کرنے پر ملا ہے اور آپ کو اقتدار صرف اور صرف عوام کی بے لوث محبت پر حاصل ہوا ہے۔

جناب وزیر اعظم!
آپ کو اقتدار نہ تو کسی فوجی جنرل کی نوازش سے ملا ہے اور نہ ہی کسی شخص یا گروہ کی مدد سے حاصل ہوا ہے، آپ کے اقتدار کا تمام تر سہرا پاکستان تحریک انصاف کے مخلص اور نظریاتی کارکنوں کی قربانیوں کے سر جاتا ہے، لہذا آپ کے اصل مشیر آپ کی جماعت کے کارکن ہی ہیں۔ آپ کی کابینہ میں شامل ہر وزیر کا صاحب کردار ہونا آپ کی مقبولیت اور کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے آخری شرط ہے، چوں کہ آپ اس اقتدار کے پرنسپل فریق ہیں لہذا آپ سے فقط اتنی گزارش ہے کہ آپ اصولوں کی فقیری اختیار کر لیں۔ ارسطو کے قول کے مطابق تمام فریق آپ کی نقل کرنے لگ جائیں گے، کیوں کہ قوموں کے لیے ان کے قائدین اور ہیروز رول ماڈل اور انسپائریشن کے چشمے ہوتے ہیں۔ عوام اشراف کے نقال ہوتے ہیں اور ”اشرافیہ” دولت اور طاقت نہیں ”رویہ” کا نام ہے۔ آپ کو یہ بات رکھنی چاہیے کہ تبدیلی تب تک نا ممکن ہے جب تک قائدین کی سوچ اور اعمال تبدیل نہیں ہوتے، لیڈر شپ کے رویے تبدیل ہوجائیں تو عوام کے ”رویے” بھی ایک خود کار نظام کے تحت خود ہی تبدیل ہو جائیں گے، حالیہ ضمنی انتخابات میں”سیاسی جوڑتوڑ” سے بالا تر آپ کا جو عمومی اجتماعی رویہ دیکھنے کو ملا وہ بہت ہی حوصلہ افزا ہے، جس پر میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک آپ کو اپنی امان میں رکھے اور آپ کو توفیق دے کہ ”تبدیلی” کے ذریعے آپ ”نئے پاکستان” کے عوام کی امیدوں اور توقعات پر پورا اتر سکیں۔
ایمان، امید اور محبت کے ساتھ۔
والسلام
ایک زمین زاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).