لندن، لندستان کیوں بنتا جا رہا ہے


ایسے لگتا ہے جیسے برطانیہ قریب قریب اسلامی ملک بن گیا ہے۔ برطانیہ میں اس وقت 423 مساجد اور شریعہ عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق مبلغ اسلام مولانا سید رضا رضوی کا کہنا ہے ایسا لگتا ہے لندن تمام اسلامی ممالک کو ملا کر بھی زیادہ اسلامی لگتا ہے۔ اسلامک شریعہ کونسل ایسی آرگنائزیشن ہے جو مسلمانوں کو مشورے اور تنازعات میں اسلامی شریعہ کے مطابق فیصلے دیتی ہے۔ کونسل زیادہ تر ایسے مقدمات کو زیر سماعت لاتی ہے، جن کا تعلق شادی، طلاق، اور کسی حد تک فنانس اور بزنس سے ہوتا ہے۔ کونسل کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق 2012 سے اب تک ہر مہینے دو سو سے تین سو تک مقدمات کو نبٹاتی ہے۔

برطانیہ میں اسلامی شریعہ کونسل کو کوئی قانونی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔ اکثر مسلمان رضا کارانہ طور پر ان کے پاس مقدمات لے کر آتے ہیں۔ کونسل کے فیصلوں کا اگر برٹش قوانین کے ساتھ تصادم ہو تو برٹش قانون کو فوقیت حا صل ہوتی ہے۔

لندن کے500 کے قریب چرچ پراپرٹی کو 2001 سے اب تک نجی اقامت گاہوں میں تبد یل کر دیا گیا ہے۔ جب کہ اسی عرصے کے دوران مسجدیں بہار کے پھولوں کی طرح جگہ جگہ نظر آنی شروع ہو گئی ہیں۔ دو سال کے عرصے یعنی 2012-2014 کے دوران ایسے لوگ جو خود کو ’انگیلی کن‘ کہتے تھے، ان کی تعداد اکیس فی صد سے گر کر سترہ فی صد ہو گئی ہے۔ یعنی 1.7 ملین افراد کی کمی آ گئی ہے۔ نیشنل سینٹر سو شل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق مسلمان د س لاکھ کی تعداد میں بڑھ گئے ہیں۔ ایک ہی نسل کی مدت کے دوران چرچ جانے والے افراد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جب کہ اس عرصے میں جمعے کی نماز کے لیے جانے والے افراد کی تعداد میں زبر دست اضافہ ہوا ہے۔

امریکا میں اینٹی شریعہ قانون سازی:
لندن کے بر عکس امریکا کی 43 ریاستوں میں اینٹی شریعہ قانون سازی ہو چکی ہے۔ محض 2017 میں چودہ ریاستوں میں اسلامی شریعت کے خلاف قانون سازی کی گئی اور دو ریاستوں ارکنساس، ٹیکساس نے اس پر عمل در آمد بھی شروع کر دیا تھا۔ امریکا میں اس اینٹی شریعہ تحریک کا بانی ڈیوڈ یرو شلمی ہے ۔ اس تحریک کا نصب العین امریکن عدالتوں میں امریکی قوانین کا نفاذ ہے اور کسی غیر ملکی قانون (شرعی قوانین) کے امریکی عدالتوں میں نفاذ کے خلاف رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔

لندن میں شرعی عدالتیں:
لندن میں اس وقت شرعی عدالتیں جگہ جگہ قائم اور کام کر رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسی عدالتوں کی تعداد 100 ہے۔ سول کورٹس کے متوازی اس نظام عدالت کی وجہ برٹش آربٹریشن ایکٹ اور مسلم آربٹریشن ٹربیونل (الٹر نیٹو ڈسپیوٹ ریزولیوشن سسٹم) ہے۔

اسلامی شرعی قانون کو برطانیہ میں دو صورتوں میں عام دیکھا جاتا ہے، یعنی حلال گوشت اور دوسرے مارٹ گیجز اور انوسٹ منٹ جو شریعت کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسلامی شرعی قانون کے مطابق نکاح شادیاں بھی ہوتی ہیں، مگر ان کو سول کورٹ میں رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ برٹش یونیورسٹیوں میں اسلامی قانون کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ لندن کے مسلم میئر صادق خاں کا کہنا ہے، کہ دہشت پسند ہمارے ملٹی کلچر ازم نظام کو با لکل ہضم نہیں کر سکتے۔ لندن میں اس وقت 423 نئی مساجد ہیں جو نمازوں کے اوقات میں جوق در جوق بھری ہوتی ہیں۔

کچھ عرصے قبل اخبار ڈیلی میل نے ایک مسجد اور چرچ جو ایک دوسرے کے نزدیک ڈاؤن ٹاؤن میں واقع ہیں، ان کی تصویر شایع کی تھی۔ چرچ آف سینٹ جارجیو جس میں 1230، افراد کے لیے عبادت کی جگہ ہے، اتوار کے روز ماس کے لیے صرف بارہ اشخاص موجود تھے۔ چرچ آف سینٹا ماریا میں بیس افراد حاضر تھے۔ اس کے قریب واقع برون اسٹریٹ ایسٹیٹ کی مسجد میں خلقت کا اتنا ہجوم تھا کہ تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اس مسجد کے بڑے کمرے میں صرف 100 نمازی سما سکتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2020 تک مسلمان نمازیوں کی تعداد 683,000 ہو جائے گی، جب کہ عیسائی عبادت گزاروں کی تعداد 679,000 رہ جا ئے گی۔ یاد رہے کہ 2001 سے لے کر اب تک، لندن کے 500 کلیساؤں کو اقامتی مکانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).