ظفر علی شاہ کو ڈر تھا کہ اسمبلی میں عورت کے ساتھ بیٹھنے پر ان کے سندھی کولیگ مذاق اڑائیں گے


جب ہم قومی اسمبلی کی طرف جا رہے تھے، جو ابھی تک سٹیٹ بینک کی عمارت میں میں تھی جبکہ نیا پارلیمنٹ ہاؤس تیار کیا جا ر ہا تھا، تو میں نے فخر سے پوچھا کہ انہیں کیا سیٹ نمبر الاٹ ہوا ہے، اور فوراً سمجھ آگئی کہ (کیونکہ ہمیں حلف برداری کے بعد خوتین کی مخصوص نشستوں پر اراکین کو منتخب کرنا تھا ) اسمبلی سیکرٹریٹ نے اپنی دانش کے مطابق مجھے کوٹہ والی خواتین کے ساتھ بٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ میری سیٹ نمبر ایک تھی، جبکہ مرد اراکین کو حروف تہجی کی ترتیب سے بٹھایا جانا تھا۔

” پرسکو ن رہو، ‘‘ فخر نے میرے اندر لڑائی کی خواہش محسوس کر کے مشورہ دیا۔ ہمارے نئے ساتھیوں، سرکاری افسران اور صحافیوں کے ساتھ پرخوش سلام دعا ہوئی۔ ہم اسمبلی کی عمارت میں داخل ہوئے، زینہ طے کیا اور ہاؤس میں قدم رکھا۔ میں سید ہا سیکرٹری قومی اسمبلی امین الحق کے پاس گئی اور پوچھا کہ مجھے کوٹہ والی خوتین کے ساتھ کیوں بٹھایا گیا تھا ( جنہیں ابھی ہم نے ووٹ دے کر منتخب کرنا تھا )۔ مجھے عوامی مینڈیٹ ملا تھا اور اسی لیے مجھے دیگر عوامی مینڈیٹ والے دیگر اراکین کے ساتھ بٹیھنا چاہیے۔

کلاسیکی بیورو کریٹک انداز میں سیکرٹری نے بچ نکلنے کی کوشش میں مبہم طور پر قائمقام چیف الیکشن کمشنر کا حوالہ دیا جسے افتتا حی اجلاس کی صدرات کرنا تھی اور ہمارے حلف لینا تھے، یہاں تک کہ اگلے روز ہم اپنا سپیکر منتخب کر لیتے۔ لیکن بلدیاتی سطح کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر چکمہ باز سرکاری دنیا کا کافی تجربہ رکھنے کی بدولت میں سیکرٹری کے فریب میں آنے والی نہیں تھی۔ میرے اصرار کرنے پر اس نے مجھے کہا کہ کیا میں سید فخر امام کے ساتھ بٹیھنا چاہتی ہوں، جس پر میں ہنسنے کے سوا کچھ نہ کر سکی۔

”سیکرٹری صاحب، میں اپنے گھر میں شوہر کے ساتھ جتنی دیر تک چاہوں بیٹھ سکتی ہوں، لیکن ایوان نمائندگان میں منتخب نمائندوں کی طرح بیٹھنے کا حق رکھتی ہوں، چاہے میرا ذاتی تعلق یا صنف کچھ بھی ہو۔ امید ہے کہ میری بات واضح ہو گئی ہو گی، ‘‘

” مجھے چند منٹ دیں، ‘‘ اس نے کہا۔ جب ہاؤس کو ترتیب سے بیٹھنے کا کہنے کے لیے گھنٹی بجی تو سیکرٹری کا ایک ماتحت عہد یدار سیٹ نمبر لے کر آیا۔ میں نے پانچویں راہداری میں چلتے ہوئے اس کے وسط میں اپنی سیٹ دیکھی جو زیادہ فائدہ بخش نہیں تھی، جبکہ سیٹ نمبر ایک فائدہ بخش تھی جسے میں نے پسند نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف یہ کم و بیش حروف تہجی کی ترتیب میں تھی اور میں نے خود کو سندھ کی سید ظفر علی شاہ کے ساتھ بیٹھا پایا۔

ہم نے اجتماعی طور پر پاکستان کے قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھایا اور پھر ہر ایک رکن کو ایک رجسٹر میں دستخط کرنا تھے جس کے بعد ہم 21 خواتین ارکین کے لیے ووٹ ڈالتے۔ کچھ ہی دیر بعد نام پکار ے جانے لگے، اور جب میں اپنے ساتھ بیٹھے نوابشاہ سے ایک رکن کے ساتھ واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو یہ سن کر شدید مایوسی ہوئی کہ ظفر علی شاہ نے ہوچھا کہ کیا میں ان کے ساتھ اپنی سیٹ تبدیل کر سکتی ہوں کیونکہ سندھ سے اس کے تمام کولیگ مذاق اڑائیں گے کہ میں ایک منتخب خاتون کے بالکل ساتھ بیٹھا ہوں۔

” شاہ جی، کیا عورت ہونا ایک مذاق ہے؟ ‘‘ میں نے اپنی آواز کا دکھ چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے پوچھا۔

” ہم سندھی بہت روایتی لوگ ہیں۔ براہ مہربانی برامت مانیں۔ شاید آپ سید فخر امام صاحب کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیں گی۔ ‘‘ انہوں نے میرا کوئی جواب آنے سے پہلے ہی پینتر ابدلا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سیکرٹری کے ڈیسک کی طرف گئے جو اراکین کی فہرست پر نظر ڈالتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ اب سیکرٹری نے جس شخص کو میرے ساتھ والی نشست پر بھیجا وہ کراچی کے ایک عالم شاہ تراب الحق تھے۔ انہوں نے سلام کیا، میں نے جواب دیا اور پھر وہ دوسری طرف دیکھنے لگے۔

”مولا نا صاحب، میں اپنے عورت ہونے کے بارے میں اتنی حساس نہیں، چنانچہ امید ہے کہ آپ بھی زیادہ محسوس نہیں کریں گے، اور میں خود کو ایک ساتھی رکن سمجھتی ہوں۔ ‘‘ انہوں نے جواب نہ دیا اور راہداری میں سے چلتے ہوئے سیکرٹری کی طرف جانے لگے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ بھی اپنی سیٹ تبدیل کرنے کا کہنے گئے ہیں۔ چیمبر میں اِدھر اُدھر نظر ڈالنے پر میں نے ایک رکن کو دیکھا جو کافی نوجوان لگتا تھا۔ وہ میری متوازی قطار میں ہال کے اخر میں بیٹھا تھا۔ میں اپنی سیٹ سے اٹھی، بال کے پچھلے حصے میں گئی جہاں وہ بٹیھا ہوا تھا۔ ڈیسک کے اوپر نام صلاح الدین سعید لکھا تھا۔ میں نے اسے مبارک دی اور کہاں کہ وہ اسمبلی کا سب سے نوجوان اور پچیس سال سے بھی کم عمر کارکن معلوم ہوتا تھا۔ اس کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔

” بیگم صاحبہ، کیا آپ بیٹھنا پسند کریں گی؟ صرف دو ہفتے بعد میں پچیس سال کا ہو جاؤں گا۔ معلوم ہے میری حریف ایک خاتون بیگم اوغی تھی۔ آپ انہیں جانتی ہیں؟ اسے پتا چل جائے کہ حلف اٹھاتے وقت میری عمر دو ہفتے کم ہے تو سیدھی عدالت میں جا کر حکم امتناعی لے لے گی۔ ‘‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس کی حریف کو اطلاع نہیں کرنے جا رہی، لیکن اگر وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھنا ہو گا۔ میں نے اسے اپنی کتھا سنائی جس پر وہ دل کھول کر ہنسا۔

عابدہ حسین کی کتاب “اور بجلی کٹ گئی” سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).