کیوں کہ عمران خان عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں


جنرل الیکشن کے بر عکس ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کام یابی کا تناسب بہت کم رہا۔ حیرت انگیز طور پر پر یہ اپنی بعض جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار گئی۔ لیکن اس کا یہ مطب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ نصیبِ دشمناں اس کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ در حقیقت “ہوئی ہے جو ہار تو کوئی باعثِ ہار بھی تھا۔” در اصل پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے لیکن چند نادیدہ قوتوں کو اس کی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، چناں چہ ایک سازش کے تحت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو سیاسی طور پر غیر فعال بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تو عمران خان نے کنٹینر سیاست سے باز نہیں آنا تھا اور اس طرح حکومت پر دھرنے کے تازیانے برسا برسا کر اس کی سمت کو درست رکھنا تھا۔ لیکن ان نادیدہ قوتوں نے انھیں وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونے کا راستہ دکھا دیا۔ چوں کہ عمران خان ملک کو کرپشن سے آزاد کرانا چاہتے تھے اس لیے قوم کے وسیع تر مفاد میں انھوں نے وزارتِ عظمیٰ قبول کر لی۔ اس طرح ان کے مخالفین وقتی طور پر عمران خان کو دھرنا سیاست سے دور کرنے میں کام یاب ہو گئے۔

یہ مخالفین عمران خان کی ذہانت سے قطعی بے بہرہ تھے۔ ہمارے کپتان وزیرِ اعظم بن کر بھی کنٹینر ٹائپ تقریریں کر کے اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دلنے لگے۔ ان مخالف سیاسی پارٹیوں نے بدلہ لینے کے لیے اتحاد کر لیا۔ اس اتحاد میں نون لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) شامل تھیں۔ اب ایک طرف اکیلا کپتان تھا اور دوسری طرف یہ لشکر تھا، یہ لشکر اگر جیتا بھی ہے تو بھی اس فتح کو ان کی “اخلاقی ہار” ہی سمجھنا چاہیے۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کا تعلق ہے تو بے چاری تنہا تھی لیکن اتنی طاقتور تھی کہ اسے کوئی اتحاد بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بی اے پی، مسلم لیگ ق، عوامی مسلم لیگ، سپاہِ صحابہ، مجلس وحدت المسلمین، جے یو آئی س، جے یو آئی نظریاتی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان علما کونسل سمیت قریباً بارہ پارٹیاں بھی یہ بخوبی جانتی تھیں کہ پی ٹی آئی کو سہارے کی ضرورت نہیں، لیکن محض اظہارِ یک جہتی کے طور پر یہ پارٹیاں پی ٹی آئی کے کیمپ میں آ گئیں، تا کہ عوام یہ نہ کہہ سکیں کہ مقابلہ برابر کا نہیں ہے۔

اب ایسی صورتِ احوال میں ساری نشستیں پی ٹی آئی کو مل جاتیں لیکن کپتان نے سوچا کہ مخالفین کو ایک بھی نشست نہ ملی تو بے چارے نشستوں کے ساتھ ساتھ دل بھی ہار جائیں گے۔ لہٰذا بجلی، گیس، سی این جی سمیت روز مرہ استعمال کی کئی اشیا مہنگی کر دیں۔ ڈالر کی قیمت کو بھی جان بوجھ کر بڑھا دیا گیا تا کہ مہنگائی سے پی ٹی آئی کے غریب ووٹرز کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ ووٹ دینے نہ جا سکیں؛ تا کہ دیگر جماعتیں بھی کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں۔ مہنگائی کا تازیانہ کچھ ایسی قوت سے برسا کہ کسی جماعت کا ووٹر اپنی کمر بچانے میں کام یاب نہ ہو سکا۔ مخالف جماعتوں کے ووٹرز جب اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کا ایکس رے کروانے گئے تو ساتھ ہی غصے میں پی ٹی آئی کی مخالفت میں ووٹ بھی ڈال آئے۔ اس طرح اندازہ تھوڑا سا غلط ہو گیا اور مخالفین ضرورت سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے جس کی وجہ سے ناقدین کو موقع مل گیا اور وہ ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نمودار ہو کر یہ گم راہ کن پروپیگنڈا کرنے لگے کہ محض دو ماہ کے اندر پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ حالاں کہ یہ درست نہیں۔ اس ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ بھی خاصا کم رہا مگر اس کی ذمہ داری ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر عائد ہوتی ہے۔ اس چینل نے عین انتخابات سے پہلے فلم “ڈونکی کنگ” ریلیز کر دی۔ بہت سارے ووٹرز ڈونکی کنگ دیکھنے سینما چلے گئے اور ووٹ نہ ڈال سکے اتفاق نے ان میں انصافی ووٹرز کی تعداد زیادہ تھی۔

چناں چہ یہ وجوہ تھیں جن کی وجہ سے تحریکِ انصاف اندازے سے زیادہ نشستیں ہار گئی اور یہ ہار سبکی کا باعث بن گئی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کی تحریکِ انصاف اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہی ہے۔ عوام اپنے پسندیدہ وزیر اعظم کے لئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اب کچھ دنوں میں پیٹرول کا ریٹ بھی بڑھنے والا ہے۔ عوام خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے یہ اضافہ قبول کریں گے۔ ظاہر ہے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ عوام اپنے محبوب لیڈر کی محبت میں گھاس کھا لیں گے مگر داد و تحسین کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ عمرانی لہر کے سامنے یہ مہنگائی کی لہر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، کیوں کہ عمران خان عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).