روشنی کی تلاش میں ’تاریک ایام ‘ کا ذکر
یہ موسم خزاں میں اوسلو کی بھیگی خنک شام ہے۔ شہر کے وسط میں ایک نیم تاریک اپارٹمنٹ ہاؤس کے ایک چھوٹے سے حصہ میں چار لوگ ایک اردو تھیٹر کی ریہرسل میں مصروف ہیں۔ ان میں سے دو اداکار ہیں۔ ایک ڈائیریکٹر اور ایک اردو کوچ۔ آپ انہیں ٹونی عثمان کا ٹولہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ٹونی ناروے کے مشہور اداکار ہیں جو متعدد اسٹیج اور ٹیلیویژن ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ تاہم چند برس پہلے اوسلو کے ایک فلم اسکول سے ڈائیریکشن کی باقاعدہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس طرف توجہ مبذول کی ہے۔ ’تاریک ایام‘ بطور ڈائیریکٹر ان کا پہلا اسٹیج ڈرامہ ہے جس کا پریمئر اوسلو میں ہی 26 اکتوبر کو ہوگا۔ یہ ڈرامہ سویڈن کے ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار ہیننگ مانکل کی تخلیق ہے جسے ٹونی عثمان نے ہی اردو قالب میں ڈ ھالا ہے۔
’تاریک ایام‘ کے صرف دو کردار ہیں۔ ایک بوڑھا اور شکی مگر خوفزدہ باپ اور اس کی جوان بیٹی جو یورپ کے کسی نامعلوم ملک کے کسی نامعلوم تاریک کمرے میں اس امید پر وقت بتا رہے ہیں کہ انسانی اسمگلروں کے جس گروہ نے ان سے انہیں اسمگل کرکے کسی بہتر ملک میں پہنچانے کے لئے رقم وصول کی ہے، وہ انہیں جلد ہی اس منزل تک پہنچانے کے لئے کاغذات فراہم کریں گے۔ لڑکی کی ماں اس تاریک، سرد اور نیم اندھیرے کمرے کی پناہ گاہ تک پہنچنے کے سفر دوران سمندر کی لہروں کی نذر ہو چکی ہے ۔ مرد کو اپنی مرحومہ بیوی سے بے حد محبت ہے اور اسے اپنی بیٹی کی حرکات و سکنات میں بیوی کی شبیہ دکھائی دیتی ہے جو اس کے خوف اور دکھ میں اضافہ کرتی ہے۔ اسی لئے بیٹی جب بھی کسی کام سے باہر جاتی ہے تو وہ بے چین رہتا ہے اور اس کے واپس آنے پر طرح طرح کے سوال کرکے اپنی پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔
ٹونی عثمان اگرچہ چھوٹی عمر میں ناروے آگئے تھے اور ان کی تعلیم و تربیت اسی ملک میں ہوئی ہے لیکن انہوں نے ناروے کے اسٹیج پر اور فلم میں اردو زبان کو متعارف کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس سے پہلے وہ سعادت حسن منٹو کی کہانی ’ٹھنڈا گوشت‘ پر مبنی ایک فلم ’سرد‘ کے نام سے بنا چکے ہیں۔ انہوں نے منٹو ہی کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’انکل سام کے نام خطوط‘ کو بھی ناروے میں اسٹیج پر پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔تاہم ان دونوں میں ٹونی عثمان نے خود بطور اداکار کام کیا تھا۔ البتہ ’تاریک ایام‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کی بجائے وہ اسے ڈائیریکٹ کررہے ہیں۔ ڈرامہ کے پروڈیوسر تھورسٹائین سیم ہیں جبکہ روشنی اور ویڈیو کی نگرانی رائیدار آندریاس رچرڈسن نے کی ہے اور میوزک اور ساؤنڈ کی ذمہ داری آموند اولویستاد نے نبھائی ہے۔ تاہم اس ڈرامہ کی تیاری ، تشکیل اور اسے اسٹیج تک پہنچانے میں سب سے زیادہ محنت اور کردار ٹونی عثمان کا ہی ہےاور ان کے تین ساتھی ارم حسن ، شمی اولکھ اور عروب سجاد اس سلسلہ میں ان کے قریب ترین معاونین ہیں۔
ارم حسن پندرہ برس تک پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ اور موسیقی کے شعبہ سے منسلک رہی ہیں تاہم چند برس سے وہ ناروے منتقل ہو چکی ہیں۔ ٹونی عثمان نے انہیں اس ڈرامہ میں اردو زبان کی نوک پلک سنوارنے اور اداکاروں کا لب و لہجہ درست کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ارم حسن نے ناروے میں مختلف ثقافتی اور موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیا ہے لیکن ناروے میں کسی تھیٹر کے ساتھ کام کرنے کا ان کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹونی کی دعوت پر برطانیہ سے آئے ہوئے دو ایسے اداکاروں کو اردو میں پرفارم کرنے کے لئے تیار کرنا بڑا چیلنج تھا جو اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن شمی اولکھ اور عروب سجاد بہت محنت سے کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زبان ہر ریہرسل میں بہتر ہورہی ہے۔
اس ڈرامہ میں پرفارم کرنے کے لئے اداکاروں کا چناؤ ٹونی عثمان کے لئے ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ناروے میں اردو بولنے والے اداکار اتنی بڑی تعداد میں نہیں ملتے اور پاکستان میں تھیٹر کی کمزور روایت اور اداکاروں کی بھاری بھر کم معاوضہ کی توقعات کی وجہ سے وہاں سے اداکار لانا ممکن نہیں تھا، کیوں کہ ناروے میں تھیٹر دولت کمانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اس سے وابستہ لوگ اسے کمٹمنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس طرح ٹونی عثمان نے برطانیہ کی طرف رجوع کیا جہاں تیسری چوتھی نسل کے پاکستانی اور بھارتی نژاد اداکار بڑی محنت سے مقامی فلم اور تھیٹر کی صنعت میں جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہت تگ و دو کے بعد ٹونی عثمان نے عروب سجاد اور شمی اولکھ کا انتخاب کیا۔ وہ ان کی لگن، شوق اور پرفارم کرنے کی صلاحیت سے متاثر ہیں۔
عروب سجاد آٹھ سال کی عمر میں پاکستان سے برطانیہ آگئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ نئے معاشرہ میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے فوری طور سے انگریزی سیکھنا اور نئے معاشرہ کے اطوار سےہم آہنگ ہونا بے حد اہم تھا جس کی وجہ سے وہ اردو سے دور ہونے لگیں ۔ اب وہ اگرچہ اردو بول لیتی ہیں لیکن انہیں اس زبان میں مافی الضمیر بیان کرنا مشکل لگتا ہے۔ عروب یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم حاصل کررہی تھیں لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا رجحان پرفارمنگ آرٹس کی طرف ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ایک پرائیویٹ اسکول سے ڈرامہ کی تربیت حاصل کی۔ وہ ایک کہانی لکھ بھی رہی ہیں لیکن جب انہیں ٹونی عثمان نے ’تاریک ایام‘ میں اداکاری کے لئے دعوت دی تو انہوں نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ ان کے والد کو تھیٹر میں اپنی بیٹی کے کام کرنے کے بارے میں شبہات تھے لیکن جب انہیں پتہ چلا کی مغرب کا تھیٹر پاکستان کے اسٹیج ڈرامہ کی طرح لچر اور غیر مہذب نہیں ہوتا تو انہوں نے بھی بیٹی کے شوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ناروے آنے کی اجازت دے دی۔ عروب کا کہنا ہے کہ ہمارے ارد گرد جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ ہمیں بھی متاثر کرتے ہیں۔ پناہ گزینوں کی صورت حال کے بارے میں اس ڈرامہ میں جس طاقتور طریقے سے ایک اہم سماجی اور سیاسی مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، اس نے انہیں بہت متاثر کیا ہے ۔ اپنے شوق کے علاوہ وہ اس موضوع کی وجہ سے بھی ٹونی عثمان کے ساتھ کام کرنے پر رضامند ہوئیں۔
شمی اولکھ کے دادا ہندوستان سے برطانیہ آئے تھے ۔ وہ خود تیسری نسل کے تارک وطن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں پنجابی مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے لیکن دوستوں اور ذاتی رجحان کی وجہ سے وہ ہمیشہ اردو ادب میں دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ وہ خود کو فطری اداکار مانتے ہیں اس لئے نوعمری میں جب ان کی بالی وڈ کے مشہور اداکار نصیرالدین شاہ سے ملاقات ہوئی اور انہیں اپنے شوق کے بارے میں بتایا تو نصیرالدین شاہ نے انہیں مشورہ دیا کہ اداکاری باقاعدہ تربیت کے ذریعے ہی نکھر سکتی ہے۔ اگر وہ اداکار بننا چاہتے ہیں تو انہیں اس کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا چاہئے۔ اس مشورہ کے بعد شمی نے لندن اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں دو سالہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد سے وہ متعدد ڈراموں میں کام کرچکے ہیں۔ لیکن اردو سے رغبت اور اس زبان میں اداکاری کا شوق برقرار رہا۔ جب انہیں ٹونی عثمان کے پروجیکٹ کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے ٹونی سے رابطہ کرکے اس میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ آڈیشن کے بعد انہیں کاسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ شمی بتاتے ہیں کہ ناروے آکر رہنا اور یہاں پرفارم کرنا سماجی لحاظ سے ایک بڑا چیلنج تھا لیکن اس ڈرامہ کا موضوع بھی ایک اہم انسانی المیہ کے بارے میں ہے ۔ انہیں اردو میں پرفارم کرنے کا شوق پورا کرنے کا بھی موقع مل رہا تھا اس لئے انہوں نے یہ رول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ٹونی عثمان نے بتایا کہ سویڈش ڈرامہ نگار ہیننگ مانکل کاتین سال پہلے انتقال ہؤا ہے اور وہ اسکنڈے نیویا کے اہم اور مقبول ڈرامہ نگار ہیں۔ انتقال سے دس سال قبل وہ بارسلونا گئے ہوئے تھے کہ بحیرہ روم میں کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی ایک کشتی کے ساتھ ہونے والے حادثہ نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے خود کو ہوٹل کے کمرے میں بند کرلیا اور انتظامیہ سے کہا کہ جب تک وہ خود باہر نہ آئیں یا رابطہ نہ کریں کوئی ان سے بات نہ کرے۔ ایک ماہ کے بعد وہ جب اس تنہائی سے باہر نکلے تو ’تاریک ایام ‘ کا مسودہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ یہ ڈرامہ اب تک سویڈن کے علاوہ ناروے میں بھی مقامی زبانوں میں پیش کیا جا چکا ہے ۔ نارویجئن ڈرامے میں ٹونی نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ تاہم ٹونی عثمان یہ ڈرامہ اردو میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ ان کا یہ خواب اب پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔
ٹونی عثمان نے بتایا کہ انہوں نے خاص طور سے اس ڈرامہ کو اس لئے بھی اردو زبان میں نارویجئن پبلک کے لئے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ زبان سے ناشناسائی کی بنا پر پناہ گزینوں یا تارکین وطن کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوسلو میں ’تاریک ایام’ کے چھے شو ہوں گے جن میں سے تین کا اہتمام دوسری جنگ میں ہوائی حملوں سے حفاظت کے لئے تعمیر کردہ ایک سرنگ میں کیا جائے گا۔ اس کا مقصد بھی ناظرین کو یہ احساس دلانا ہے کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کو کس قدر مشکل اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
- کیا جنرل فیض حمید تنہا نظام کی خرابی کے ذمہ دار ہیں؟ - 10/12/2024
- بشار الاسد کے بعد شام کو ایک نئے چیلنج کا سامنا - 09/12/2024
- سول نافرمانی، کس کے خلاف؟ - 08/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).