بالشتیوں کے دیس میں وہ ایک قد آور خاتون تھیں



انسانی حقوق کی سرکردہ آواز محترمہ عاصمہ جہانگیر کو یاد کرنے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کچھ دن پہلے لاہور میں دو روزہ بین الااقوامی کانفرس کا انعقاد کیا گیا۔ اس عالمی کانفرس میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سمیت وکلا برادری کے لوگ بھی شریک تھے۔ اس کے علاوہ فن کار، مصور، انسانی حقوق کے نمایندے، میڈیا پرسنز اور سول سوسائٹی کے لوگ بھی شامل تھے۔ اس کانفرس میں شاندار الفاظ میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ کانفرس میں کہا گیا کہ وکلا، وکلا پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات پر توجہ دیں اور عاصمہ جہانگیر کے انقلابی مشن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں۔

کانفرس سے خطاب کے دوران سول سوسائٹی کی کچھ شخصیات کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے مثالی انسانی اصولوں پر پاکستان کی وکلا برداری کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ یہ سنہری اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں۔ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ عاصمہ بی بی حیران کن شخصیت کی حامل تھیں۔ لوگ ان کی بہادری اور انقلابی سوچ دیکھ اور سن کر حیران رہ جاتے تھے۔ اس لئے ان کے مشن کو پاکستان میں ہر صورت زندہ رکھا جائے۔ عالمی سول سوسائٹی کے نمایندوں کا عاصمہ جہانگیر کانفرس میں کہنا تھا کہ وہ ایک طاقتور خاتون تھی اور عالمی انسانیت کا خوبصورت اثاثہ تھی، اس لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کا پیغام عام کیا جانا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں سب سے طاقتور آواز تھی۔ عاصمہ جہانگیر کے بعد پاکستان میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی روایت اچانک دَم توڑ گئی ہے۔ جب وہ زندہ تھیں، تو ہر وقت ظلم، جبر اور انسانی اقدار پر پابندی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتی رہتی تھی لیکن ان کے بعد لگتا ایسے ہے کہ ہر طرف خوف کا سایہ ہے اور کوئی بھی ظلم کے سامنے آواز بلند کرنے کے لئے تیار نہیں۔

گزشتہ پچاس سالوں سے وہ مظلوم عوام کی آواز بنی ہوئی تھی، ہمیشہ طاقتوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی تھی۔ وہ قومی ضمیر کی آواز تھی۔ ہر طاقتور کو انہوں نے آئنہ دِکھایا۔ شاید وہ اتنی بہادر خاتون تھیں کہ اس ملک میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔ وہ کم یاب ہی نہیں نایاب بھی تھیں۔ ان کے بعد اس ملک میں کوئی اور عاصمہ جہانگیر نظر نہیں آتیں۔

عاصمہ جہانگیر کو پاگل پن کی حد تک بہادر کہا جاتا تھا۔ غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جہانگیر چاہتی تو ہائی پروفائل کیسز سے کروڑوں کماتیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ کیسے غلام جیلانی کی بیٹی ایسا کرسکتی تھی؟ وہ غلام جیلانی جو خود انصاف اور انسانیت کے لئے جیلوں میں رہا۔

ایک انٹرویو کے دوران عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ ان کے والد غلام جیلانی جیل میں قید ہوتے اور جب جیل میں وہ ان سے ملنے جاتیں تو ملنے نہیں دیا جاتا لیکن جب ان کے والد کو عدالت میں پیش کیا جاتا تو ملاقات ہو جاتی تھی۔ اس لئے انہیں عدالت سے محبت ہے۔ ان کا پاکستانی قوم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ عاصمہ جیلانی کیس کی وجہ سے پہلی مرتبہ عدالت کی جانب سے ڈکٹیٹر کو غاصب قرار دیا گیا۔ عاصمہ جیلانی کیس پاکستان کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

وہ ایک ایسی نایاب بہادر خاتون تھیں، جنہوں نے پاکستان میں نئی نئی روائتوں کی داغ بیل ڈالی۔ خواتین کے حقوق کی پہلی سیاسی تنظیم کی بنیاد انہوں نے ڈالی۔ اس تنظیم کا نام وومن ایکشن فورم ہے۔ ایچ آر سی پی کی بانی رکن تھیں۔ وہ ایچ آر سی پی جن کے ساتھ جسٹس دراب، آئی ائے رحمان، حسین نقی جیسے نام منسلک رہے ہیں۔ اب تو انسانی حقوق کی سربلندی کے لئے میرے جیسا کم عقل انسان بھی بات کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا ہے لیکن جس زمانے میں وہ انسانیت کا پرچار کرتی تھیں، تو اس وقت یہ سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس وقت جیل تھی، سختیاں تھیں اور دھمکیاں تھیں؛ جو بی بی عاصمہ نے برداشت کیں۔

اس وقت انسانی حقوق کی بات کی جب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ 1983میں صفیہ نامی اندھی لڑکی کے ساتھ ریپ ہوا ،وہ حاملہ ہو گئی۔ حدود آرڈیننس کے تحت اسے کوڑوں کی سزا سنا دی گئی۔ ضیاٗ کا دور تھا، کوئی صفیہ کے لئے باہر نہ نکلا، لیکن وہ صفیہ کے لئے میدان میں آئیں۔ جنگ لڑی اور کام یاب ہوئیں۔ اسی طرح صائمہ وحید کیس بھی سب کو یاد ہو گا، یہ ایک لو میرج کا کیس تھا۔ 1987 میں عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ ولی کی اجازت بغیر لڑکی شادی نہیں کر سکتی، چاہے وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو۔ 2003 میں عاصمہ جہانگیر کا موقف درست ثابت ہوا۔عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ لڑکی ولی کے بغیر بھی اگر وہ بالغ ہے تو اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ ضیا دور میں پہلا توہین مذہب کا الزام ان پر لگایا گیا۔ ضیا نے اس حوالے سے کمیشن بنایا۔ اس کیس سے بھی وہ کلیئر ہوئیں۔

عاصمہ جہانگیر، وہ عظیم خاتون تھیں کہ جن کا کیس کوئی نہیں لڑتا تھا۔ وہ ان کا کیس لڑتی تھیں۔ وہ کسی سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن وہ کسی کے حق کے لئے لڑتی تھیں اور اسے حق دلوا کر رہتی تھیں۔ جنہوں نے عاصمہ جہانگیر کو پتھر مارے، عاصمہ نے ان کی بھی مدد کی۔ ایک نام نہاد کالم نگار ہیں، جو ایک زمانے تک جنگ اخبار میں ان کے خلاف مہم چلاتے رہے کہ وہ ملک دشمن اور اسلام دشمن خاتون ہیں، لیکن جب جنگ گروپ پر برا وقت آیا اور کوئی ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہ تھا، تو وہ جنگ گروپ کی وکیل بنیں اور ان کا کیس بہادری سے لڑا۔

ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین نے انہیں گالیاں دیں اور کہا کہ یہ ایک متعصب اور گندی خاتون ہیں، لیکن جب الطاف حسین کی تقریروں پر ٹی وی پر پابندی لگائی گئی، تو عاصمہ جہانگیر نے الطاف حسین کی آزادی حق کی بات کی اور الطاف کے لئے مقدمہ لڑا۔ حسین حقانی کو غدار کہا گیا۔ ملک دشمن اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ میمو گیٹ میں اسی خاتون نے حسین حقانی کا مقدمہ لڑا۔ اس وقت کوئی بھی حسین حقانی کا کیس لڑنے کو تیار نہیں تھا۔

فروری 2002 میں مشرف حکومت نے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کو گرفتار کر لیا اور مشرف ان پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتے تھے، عاصمہ نے اس وقت یہ بیان دیا کہ قاضی حسین احمد سے ان کے لاکھ اختلافات ہیں، لیکن وہ سیاسی رہنما ہیں۔ سیاستدان کو دہشت گردی سے جوڑنے کا مطلب سیاست کو بدنام کرنے کی سازش کرنا ہے۔

عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا جب انتقال ہوا تو قاضی صاحب کی بیٹی سمعیہ راحیل قاضی نے ٹوئٹر پر عاصمہ جہانگیر کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ مختلف نظریہ رکھتی تھیں، لیکن اللہ ان کی مغفرت کرے۔ یہ تھیں عاصمہ جہانگیر۔ عاصمہ پاکستان میں انسانیت کا ضمیر تھیں۔

میڈیا کے ایک اینکر مبشر لقمان نے عاصمہ جہانگیر کے خلاف خوف ناک پروگرام کر ڈالا۔ کچھ دنوں بعد مبشر لقمان ان سے ملے تو عاصمہ نے ادب سے بات کی اور کسی قسم کا گلہ تک نہ کیا۔ بعد میں اسی مبشر لقمان نے تسلیم کیا کہ عاصمہ جہانگیر ایک عظیم خاتون تھیں۔

پاکستان میں ایک لال ٹوپی والی سرکار ہیں۔ وہ ہمیشہ عاصمہ جہانگیر کو ملک دشمن، اسلام دشمن اور کافر قرار دیتے رہے۔ ایک زمانے میں سعودی عرب میں گرفتار ہوئے، جیل بند کئے گئے، سعودی جیل میں ان پر تشدد ہوا۔ عاصمہ نے پاکستان میں ان کے آواز بلند کی۔ ان کے انتقال پر دنیا کے ہر ملک سے انہیں خراج عقیدت پیش کیاگیا، کسی نے انہیں سپر وومن کہا تو کوئی انہیں انسانی حقوق کی عظیم علم بردار کہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں قومی ضمیر کی اکلوتی آواز تھیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج ظلم و جبر کا سماں ہے اور کہیں سے کوئی آواز نہیں آ رہی۔

ان کی کمی پاکستان میں ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ پاکستان کو آج عاصمہ جہانگیر جیسی آوازوں کی ضرورت ہے۔ عاصمہ جہانگیر جیسی خاتون کے اعزاز میں کانفرنسیں ضرور کریں لیکن ان کے مشن کو بھی جاری رکھیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے مشن کو آگے بڑھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).