وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے



وہ ایک بار پھر گم ہو گیا، نہیں! شاید وہ کبھی لا پتا ہوا ہی نہ تھا۔ ہمی اسے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے کچھ اس انداز میں پوچھتے رہتے، کہ وہ جیسے کہیں کھو گیا ہو۔ کتنے سال بیت گئے، وہ ویسے کا ویسا ہی، یہ اس کی مستقل مزاجی یا طبیعت کہیں، تین دہائیاں گزرنے کو ہیں، مگر اس دوران کئی کئی سال گزر جاتے ہیں اور اس کا کچھ معلوم نہیں وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟

ہمارے استاد نے ایک دن اچانک پوچھ لیا، وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ زرا دیکھو اور مجھے بتاؤ۔
کام بظاہر مشکل نہ تھا لیکن خیال تھا کہ آسان بھی نہیں، اس کا اتا پتا تلاش کرنا؛ پھر کیا تھا ایک کو پوچھ دوسرے کو ہر اک اجنبی سے پوچھا، بس یہی رپورٹ ملتی تھی دو سال پہلے، یا تین سال پہلے، فلاں شہر میں فلاں شخص کے ساتھ کام کرتے پایا گیا تھا۔ وہ اگر چہ اکیلا دکھ میں مبتلا انسان نہیں، یہاں جسے پوچھو اس کے دُکھوں کی فہرست ہے، پریشانیوں کے انبار سر پر لادے ہر کوئی پھرتا ملے گا۔ ایک ایسا ٹھکانا، جسے جدید دور میں سوشل میڈیا کہا جاتا ہے، وہاں بھی اکثر کھوئے ہوئے دوست اور بھولی بسری یادیں عمر رفتہ کو آواز دیتی مل جاتی ہیں، وہاں بھی دوستوں کی ڈیوٹی لگائی کہ اس کا کھوج لگائیں، ابتدائی سرچ میں گوکل پر بھی نا کامی ہوئی۔

کچھ نئے ملنے والے دکھیا سے آشنا نہیں، انہیں بھی بتایا کہ وہ بڑا بھولابھالا سادہ طبیعت کا انسان ہے، گوجرانوانہ کا سپوت آج سے 28 سال پہلے لاہور میں پنجابی زبان کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر آیا تھا، اس نے ہمارے ساتھ مل کر پاکستان کے پہلے قومی پنجابی اخبار میں دن رات محنت کی اور اپنا نام ہمارے حلقے میں خوب کمایا، وہ اپنے منفرد اور دل چسپ مزاج کے باعث دلوں میں بنگلا بنا لیتا تھا۔ بنگلا اس لیے کہ گھر چھوٹا پڑ جاتا تھا، بنگلے میں چہل قدمی کا اچھا موقع مل جاتا اور وہ ذہنی اور روحانی چہل قدمی کا خوب عادی تھا۔

سوچ ایسی پرواز کرتی کہ اسے پکڑنا مشکل ہو جاتا، وہ اپنی ترنگ کا آدمی تھا۔ اس کے بارے میں ماضی کا صیغہ اس لیے استعمال ہو جاتا ہے کہ اس کے ہونے کی تصدیق گزشتہ بے شمار برسوں میں کم اور کھو جانے کے قصے زیادہ ہیں، اس مناسبت سے کھوئے ہوؤں کو ماضی کی یادوں سے جوڑ ہی کر بیان کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ معلوم نہیں اس نے اس سارے دور میں کتنی تلخیاں اور تکلیفیں دیکھیں، یہ اس کی ذات اور وہ ذات جانتی ہے جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے۔ ایک بات ضرور ہے اس کو اپنی جان از حد عزیز رہتی تھی، اب کا معلوم نہیں۔

یہ بھی ہے کہ اس کو دوستوں کی یاد بہت کم آئی ہو گی، محض نظریہ ضرورت کہ تحت شاید کسی کو مل لیتا ہو۔ ہو سکتا ہے یہ میرے جیسے دوست کا خیال ہو، جس کی اسے یاد شاید آتی بھی نہ ہو لیکن میں اسے کبھی نہیں بھولا، یہ تحریر اور آٹھ سال پہلے لکھی یادیں بھی اس کا ثبوت ہے۔ اس کا دکھ کئی سال پہلے بھی کسی نے سنجیدگی سے جاننے کی کوشش نہ کی یا پھر کہہ لیں اس نے کسی کو اپنے دل کا حال درست بیان نہیں کیا اور اگر کسی ایک کو معلوم ہے تو بھی اس کے دکھ کم ہوئے یہ بھی کم لوگ ہی جانتے ہیں۔

اصل میں ہم سب یار دوستوں نے اس کو پکار پکار کے مستقل طور پر دکھیا بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، ورنہ اس کے اپنے الفاظ میں یہ کہنا کہ میں اکیلا نہیں دکھیا سب سنسار ہے، بالکل درست بیانیہ ہے، کیوں کہ زندگی کے بنیادی جزو سے مفر ممکن نہیں۔ اگر دوستوں نے ایک دوسرے کے دکھ اور درد بانٹنے پر توجہ دی ہو تو اس جیسے دوست گم نہ ہوں۔ یہ کہہ دینا کہ اس کے لیے دوستوں نے بہت کچھ کیا، مگر وہ نہیں سدھرنے والا یا اس کا مزاج ہی ایسا ہے وہ نہیں بدل سکتا۔ پھر شاید ہم خود کو بھی نہیں بدل سکتے اور نہ کسی دوسرے سے اس کی توقع کر سکتے ہیں۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، کہ اس کو کہاں تلاش کریں۔ اگر چہ اس سب کے نتیجے میں نہ تو اس کے لیے کوئی کام دھندا ڈھونڈ رکھا ہے اور نا ہی کوئی مستقل مصروفیت؛ مقصد محض اتنا ہے کہ وہ کس حال میں ہے یہ جاننا اور بس۔

اس تحریر کے دوران چند روز بعد ایک دوست نے تنگ آ کر اس کے دیرینہ ہم راز کا نمبر دینے کا وعدہ کر لیا، پھر میرے اصرار پر وہ نمبر بھی مل گیا۔ اسے میرا حسن طلب بھی بتا ڈالا اور کچھ ہوا بھی ایسے جونھی میں نے کال کی، اس قریبی رفیق نے نہ صرف مجھے پہچان لیا بلکہ خود ہی میرا مدعا بیان کر ڈالا۔ اس گفت گو کے دوران ہی ایک ان جانی سے خوشی اور طمانیت کی سی کیفیت سے سرشار ہو گیا کہ بس وہ مل گیا؛ وہ کہیں نہیں گیا اور سب سے دل چسپ بات یہ کہ وہ میرے ہی شہر میں کہیں پناہ گزین کی زندگی بسر کر رہا ہے۔

جونھی مجھے اس کا نمبر ملا میں نے کال ملائی اور دریافت کیا وسیم صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟ جواب ملا آپ کون ہیں؟ اپنا مکمل نام بتایا تو فوراً ردعمل میں بالکل تجسس حیرت کا تاثر لیے بغیر جیسے میرے فون کے ہی منتظر ہوں، جواب آ گیا، میں نے دریافت کیا اتنے برسوں کا کوئی حساب یا تفصیل تمھارے پاس موجود ہے؟ اس نے کہا پہلے کون سا میں رجسٹر زیست بغل میں دبایا ہوتا تھا، کہ آپ کو ورق در ورق احوال بیان کروں۔

بہرکیف اس نے ایک بار پھر نہایت مطمئن انداز میں اپنے دکھوں کی پٹاری کھولی، بیتے دنوں کے احوال کے صفحات بڑی خوشی خوشی پلٹنے شروع کیے، کہیں لمبی سانس لینے تک کی نوبت نہ آئی۔ جب پوچھا کہ روزگار کا سلسلہ کیسا چل رہا ہے، تو نہایت سادگی میں بیان کر دیا کہ میری مصروفیات کے حوالے سے سب افواہیں ہیں، حقیقت وہی ہے کہ کچھ نہیں مگر بہت کچھ۔

وہ شاید اب کسی نوکری کا بہت زیادہ منتظر بھی نہیں محسوس ہوا، زندگی کیسے کٹ رہی ہے کوئی بہت زیادہ لمبی اور دشوار گزار لمحات پر مبنی کہانی بھی نہیں سننے کو مل سکی۔ وہ یہاں تک مجھے حیران کر گیا کہ آخری مرتبہ چھہ یا سات سال پہلے، جب فون پر بات ہوئی تھی تو بس ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ تو فون نمبر کہیں آگے پیچھے ہو گیا تو ملاقات کا عہد اتنا طویل ہو گیا۔ خیر! وہ خوش تھا کہ میں نے اُسے ڈھونڈ نکالا، تقریباً ایسی ہی کیفیت میری تھی، یہ تسلی ہو گئی وہ یہیں کہیں ہے اور ملنے کا پھر وعدہ بھی لے لیا، یہاں تک کہ بزرگوں سے ملاقات کا عزم بھی ظاہر کر گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ سچے جذبے ہوں تو ہر شے مل جاتی ہے، وہ کس باغ کی مولی ہے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ وہ مل گیا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar