خون آشام انسان بن سکتے ہیں، دانشور کی واپسی ممکن نہیں


مجھے آج بھی وہ شام اک اک لمحے کی تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ میں لندن کی فلیٹ اسٹریٹ کی راہ پر بھٹک رہا تھا۔ خلیفہ قرطبہ عبد الرّحمٰن سوئم نے مجھے سفارتی وجوہ کی بنیاد پر یہاں بھیجا تھا۔ انگلستان اس وقت موجودہ انگلستان کے بالکل بر عکس تھا۔ میں اس دورے کے دوران تین افراد کو صرف فرقہ واریت کی بنا پر جاں بحق ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔

اس پراسرار گلی پر شام اتر رہی تھی، اور اس خون صورت شام میں نہ جانے کیا کشش تھی، کہ وہیں سینہ تھامے کھڑا رہ گیا۔ قرطبہ کے باغات اور شان و شوکت سے بھرپور ستونوں سے دور بھی ایک جہاں آباد تھا، جو کہ اپنی کس مپرسی کے باوجود ایک خاص، ایک الگ ہی خوب صورتی رکھتا تھا۔ اسی اثنا میں ایک پرانے مکان کی بوسیدہ دروازے میں کھڑی ایک سفید دوشیزہ دکھائی دی۔ ایک تو اس گلی کے کوچے جذبات پر پہلے ہی حامض الكبريتيك ثابت ہو رہی تھی، مزید ستم نیلگوں آنکھوں والی اس عورت کے روپ میں شیطان نے بہکانے میں ڈھا دیا۔ پھر یہ سوچ کر خیال جھٹک دیا کہ میں شاہی دربار سے ہوں اور ان لوگوں سے جو اپنے افکار و اصائل کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں، لوگ کیا کہیں گے؟ کہ خلیفہ عبد الرّحمان کا درباری ایسا ہو گا؟ پھر سوچا مسلمان تو ہندوستان میں بھی ہیں، اگر انھیں آج تک کوئی نہ ٹوک سکا تو مجھے ٹوکنے کی ہمت کس میں ہو گی؟

اور پھر میں نے سب بھلا کر اپنا آپ اس دوشیزہ کے سپرد کر دیا اور اس چھوٹے سے گھر میں داخل ہو گیا۔ مگر بہکنے کی سزا کیا ہوتی ہے، یہ احساس تب ہوا جب میری گردن پر ہونٹ رکھتے ہی اس نے کسی رگ میں اپنے نوکیلے دانت بھی پیوست کر دیے۔ میں خوف و ہراس میں کھویا، ٹانگوں میں کوئی سکت نہ ہونے کے باوجود بھی بھاگا اور بہت بھاگا، حتیٰ کہ ہندوستان سے آیا ایک وفد مل گیا جنھوں نے مجھے سنبھالا اور مرہم پٹی کی۔ اور پھر انھی کے مقام پر موجود بھنگ کے کچھ گھوٹ لیے تو ایسی نیند آئی کہ اگلے دن دوپہر کو آنکھ کھلی۔ لیکن جیسے ہی کھڑکی کے سامنے گیا، تا کہ باہر سے گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھوں اور کچھ اشرفیاں نیچے پھینک دوں، کہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں، قسطنطنیہ کے ہوں یا انگلستان کے، کیا دیکھتا ہوں کہ دھوپ کی پہلی کرن پڑتے ہی چہرہ جھلس سا گیا۔

بس وہ دن تھا کہ میں رات کا اسیر ہوا اور ہو کر رہ گیا۔ دن میرے لیے موت تھا، اور سایوں میں چھپ کر ہی گزرتا تھا۔ شرم کے مارے واپس قرطبہ جانے کی بجائے ہندوستانی وفد کے ساتھ یہیں لوٹ آیا اور سکونت اختیار کی۔ جیسے ہی لوگ میری اصلیت جانتے، مجھے شہر بدر کر دیتے یا میرے خون کے پیاسے ہو جاتے۔ آخر کیوں نہ ہوتے، آخر میں بھی تو ان کے خون کا پیاسا تھا اور اسی پر جیتا تھا۔ اس دوران سقوط قرطبہ بھی وقوع پذیر ہو گیا، ہندوستان میں انگریز آ گیا۔ اور اسی طرح پانچ سو سال گزر گئے۔ جو کہ تنہا رہتے ہوئے لاکھوں سال کے برابر معلوم ہوا تھا۔ میں شدت سے چاہتا تھا کہ کاش واپس انسان بن سکوں، لوگوں سے تعلق قائم کر سکوں۔ لوگوں میں مقبول ہو سکوں۔

سن دوہزار دس میں مجھے معلوم ہوا کہ خون آشامی کا علاج چین میں موجود ہے۔ میں فوری گیا، اور وہاں سے آبِ حیات پی کر انسان بن کر واپس آیا۔ خوشی کی انتہا نہ تھی۔ قدم زمین پر لگنے سے قاصر تھے۔ کہ اب میں بھی انسان ہوں اور انسانوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگوں گا، مگر یہ جان کر وہی زمین قدموں تلے سے ٹوٹ کر خلا میں کہیں کھو گئی کہ دنیا کے تمام انسان دانشور بن چکے تھے۔ خون آشام سے انسان بننا تو ممکن ہو گیا، مگر انسان ایک بار دانشور بن جائے، تو وہ کبھی واپس انسان نہیں بن سکتا۔ میرے نصیب میں جو تنہائی لکھ دی گئی ہے، شاید ہی کبھی دور ہو۔

ایک خون آشام کی ڈائری سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).