ہم خوش ہیں کہ آج ایک درندے کو سزا مل گئی


17 اکتوبر 2018 آنے میں چار دن باقی تھے۔ خبروں میں بتایا گیا کہ اس روز ایک درندے کو اس کے وحشیانہ رویے کی سزا دی جائے گی۔ ‘زینب سمیت 8 بچیوں کے قاتل عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو گئے ہیں۔ صدرِ مملکت نے رحم کی اپیل مسترد کر دی۔’

وہ دن آ پہنچا۔ علی الصبح اس وحشی درندے کو اس کے انجام تک پہنچا دیا گیا۔ جہاں معصوم بچیوں کے والدین کے دل کو ٹھنڈک ملی وہیں پوری قوم نے بھی سجدۂ شکر ادا کیاکہ اندھا ہی سہی، پر قانون تو زندہ ہے۔ مگر یہاں بہت سے حل طلب مسائل سر اٹھاتے ہیں کہ کیا بحیثیت قوم ہم سرخرو ہو گئے؟ محض ایک مجرم کو سزا دینے سے معاشرے میں امن قائم ہو گیا؟ کیا لوگوں نے اس سے کوئی سبق حاصل کیا؟ کیا ایسی سزائیں معاشرے میں ان واقعات کی روک تھام کے لیئے مفید ہیں؟ اور کیا واقعی ہم لوگ اس قدر ڈھیٹ ہو چکے ہیں کہ جب تک سزائیں نہ دی جائیں ہم فقط باتوں سے مان جانے کو اپنی بے حرمتی سمجھتے ہیں؟

زینب کے قاتل کو چند ماہ قبل گرفتار کیا گیا۔ اس کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ٹرائلز کے بعد جرم ثابت ہونے پر سزا سنادی۔ اور آخر کارصدر مملکت سے رحم کی درخواست مسترد ہونے پر آج تحتہ دار پر لٹکا دیاگیا۔انصا ف کا بول بالا ہوا۔ قانون کی جیت ہوئی۔لیکن ا نسا نیت اس سے قبل بھی شرمندہ تھی اور اس دوران بھی اپنا منہ چھپا ئے ہی نظر آئی۔

اس پورے عرصے کے دوران ہم نے در جنوں جنسی زیادتی کے واقعات کے چر چے سنے۔صرف معصوم بچیاں ہی نہیں ننھے ننھے بچے بھی ا س حیوانیت کا شکا ر ہوئے۔ پھر چاہے شہر کی جگمگا تی سٹرکیں ہوں یا گاؤ ں کی سنسان پگڈ نڈیاں تمام والدین اپنے بچوں کے لئے فکر مند نظرآئے۔کہیں کوئی معصوم کلی ان بھیڑیوں کے قدموں تلے روندی نہ جائے ماں باپ نے گھر کی چار دیواری میں چھپا کر رکھ لیا۔

آئے روز منظر عام پر آنے والی ان کہانیوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ آج کل انسان میں پائی جانے والی حیوانی خصوصیات اپنے جو بن پر ہیں اور وہ خود اپنی ان صفات پر قابو پانے سے قاصر ہے۔کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو دی گئی سزا دوسرے لوگوں کے لئے باعث عبرت ہے لیکن اس دور میں نفسا نفسی کا عالم یہ ہے کہ اس بات کا اثر زائل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا دے دینا ایک پل کے لئے تو خوش آئند ضرور ہے لیکن باقی ملزموں کا گرفتار تک نہ ہو پانا پھر سے اندھیر نگری میں لے جاتا ہے۔ قانون مجرموں کو رعایت نہیں دیتا لیکن جو لوگ اس کے شکنجے میں آ ہی نہیں پاتے ان کے لئے کونسے مؤثر اقدامات کئے گئے یا کئے جا رہے ہیں۔ان کو جاننے کا حق تو ہم سب کو ہے لیکن شاید جواب دینے والے ابھی موجود نہیں۔جواب تو بحیثیت ایک عام آدمی ان سب سوالوں کا میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اور جب تک جواب ڈھونڈے جائیں گے تب تک مجھے یقین ہے یہ واقعہ اور اس جیسے ہزاروں کہانیاں قصۂ پارینہ بن چکے ہونگے۔

ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں جنسی زیادتی جیسے واقعات پر اظہارِ رائے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنا تو دور کی بات یہاں تو لوگوں سے اس بارے میں بات کرنا ہی گناہ ہے۔ دوسروں کو ان کے جرم کی سزا دے دینا آسان ہے لیکن خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنا مشکل۔ اپنے اندر پلتی برائیوں کا ادراک کرنا ناممکن سی بات ہے۔

ہم خوش ہیں کہ آج ایک درندے کو اس کے کئے کی سزا مل گئی۔ وہ معصوم کلیاں جو بھیڑیے کی حیوانگی کی نذر ہوئیں آج ہم سے راضی تو ہیں مگر سوال کرتی ہیں کہ کیا تم اپنے اندر سے برائی کی جڑ کا خاتمہ کر سکتے ہو جس سے باقی بچیوں اور ان کے گھر والوں کی زندگی عذاب ہونے سے بچ جائے۔ کیا واقعی تم لوگ اتنے ڈھیٹ ہو چکے ہو کہ جب تک سزائیں نہ دی جائیں تم فقط باتوں سے مان جانے کو اپنی بے حرمتی سمجھتے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).