تبدیلی سرکار کو زناٹے دار جواب


پاکستان میں عام انتخابات میں تو بسا اوقات اپ سیٹ مقابلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ضمنی انتخابات میں ایسا ہونا قریب قریب نامکن ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بے شک حکومتی وزیر ، مشیر، اراکین ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی براہ راست اگر مدد نہ بھی کریں تو اندرون خانہ حکومتی امیدوار کو واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔ اور ضمنی انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اور دلچسپی اسے لیے کم رہتی ہے کیوں کہ عام فہم بات یہی رائج ہے کہ ضمنی انتخابات میں جیت حکمران جماعت کی یقینی ہوتی ہے اور اس میں شک ہے بھی نہیں۔ کہ ووٹ دینے والوں کو بھی پتا ہوتا ہے کہ ان کے کام تو حکومتی نمائندے کے توسط سے ہونے ہیں۔ لہذا جن لوگوں نے مخالف جماعتوں کو ووٹ بھی دیا ہوتا ہے ان کی اکثریت بھی حکومتی امیدوار کی حامی ہی نظرآتی ہے سوائے چند نظریاتی افراد کے جو با امر مجبوری مخالف جماعت سے اپنے تعلق کی بناء پہ اس جماعت کی حمایت پہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔

عام انتخابات دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکنے کے باوجود چاروں صوبوں میں نہ صرف نظر آئی بلکہ اس نے عوام کے دل کو سرور دینے والے تبدیلی کے نعرے بھی دیے۔ انہوں نے اپنے آپ کو عوام کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا کہ وہ ہی ان کی مشکلات کا مداوا کریں گے۔ وہ ہی ملک میں حقیقی تبدیلی لے کر آئیں گے۔ وہی ہی بائیس خاندانوں والی روایت کو توڑیں گے۔ وہ ہی پاکستان سے موروثیت کا بت پاش پاش کر دیں گے۔ عوام نے اعتبار کیا، کہ اعتبار کرنے کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا کہ آزمائے ہوؤں کو آزمانا کہاں کی دانشمندی تھی۔ جوشیلے سپورٹر ملے، پر عزم ووٹر ملے، پر امید بوڑھے ساتھ تھے، حوصلہ مند جوان ہمرراہ تھے۔ تبدیلی کے نعرے پہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ تین صوبے بھی اس کے ہاتھ آ گئے۔ یہاں پہ آ کے پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ہی دعوؤں ، وعدوں، نعروں کی فہرست مرتب کرنی چاہیے تھے جن کی جانب تکمیل کا سفر شروع کیا جاتا لیکن یہاں سے معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔

عوام کو چونا لگایا گیا کہ ہم خود انحصاری کی جانب قدم بڑھائیں گے۔ عوام بے چارے بھی سمجھے کہ بھٹو کے نعرے کی طرح شاید عمران خان بھی گھاس کھا لیں مگر عوام سے کیے گئے وعدے نہ توڑیں۔ لیکن مشیر کان پڑئے کہ سرکار کنٹینر پہ کیے گئے نوے فیصد سے زائد دعوے تو قابل عمل ہیں ہی نہیں۔ خود کشی کر لوں گا دعویٰ کیا لیکن حقیقتاً جب اقتدار ملا تو معلوم پڑا کہ ایسے آناً فاناً عالمی اداروں کے چنگل سے نکلنا تو ناممکن ہے۔ لہذا خود انحصاری والا وعدہ سلطان راہی(مرحوم ) والی بڑھک ہی ثابت ہوا۔ اور جب سے آئی ایم ایف کے قدموں سے لپٹنے کا ارادہ کیا ہے تب سے گذشتہ حکومت کے غلط فیصلوں پہ بھی رائے زنی ذرا کم ہو ہو گئی ہے۔ سابقہ حکومت نے ڈیم بنائے نہیں، بجلی پیدا کی نہیں، بس عوام کو لوٹا ہم آئیں تو بیرون ملک پاکستانی دولت کے انبار لگا دیں گے اپنے ملک کے لیے، نعرہ نعرہ ہی رہا، اور جس چیونٹی کی رفتار سے ڈیم فنڈ میں رقم آ رہی ہے اس سے مستقبل قریب میں تو ڈیم بننے کے آثار نہیں، اور پانچ سال پورے ہونے کے قریب کہا جائے گا ہمیں ایک موقع اور دے ہم ڈیم بنانے کے قریب آ چکے ہیں( نوٹ فرما لیجیے، ایسا ہو گا)۔اقتدار سنبھالا، نیا نیا خمار تھا، وعدہ کر ڈالا کسی رکن اسمبلی کے رشتہ دار کو ٹکٹ نہیں اب دوں گا ضمنی الیکشن میں۔

کسی بھلے مانس نے کان میں شاید سرگوشی کی کہ جناب ایس کیا تو آدھی پارٹی گئی ہاتھ سے۔ مجبوراً این ائے ساٹھ ہو یا این ائے تریسٹھ، این ائے انسٹھ ہو یا پھر این ائے پینسٹھ، اپنے موروثیت کے نعرے کو سات پردوں میں چھپانا پڑا اور ٹکٹ کی بندر بانٹ ایسے ہی کرنا پڑی جیسے باقی کرتے آئے تھے۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے خیبر پختوانخواہ کے ایک خاندا ن پورے کو ہی اقتدار میں لے آئے۔ عوام انگشت بدندان تھے کہ کب وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی کا درجہ پائے گا، کب گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا، کب وزیراعلیٰ ہاؤس کے لان عوامی پارک بن پائیں گے۔ کیسے پروٹوکول کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن ہنوز دَلی دوراَست، انہیں تو تبدیلی ایک ایسے ٹرک کی بتی ہی محسوس ہونے لگی جو ان کے بھاگنے پہ بھی دور ہی جا رہا ہے۔ ووٹرز بڑے سیانے تھے انہوں نے سیڑھی پہ چڑھایا تو وہ اتارنا بھی جانتے تھے۔
ضمنی انتخابات ہوئے، این ائے تریسٹھ میں ن لیگ کے ایک نووارد بھی تیس ہزار سے زائد ووٹ لے گیا۔ اور جیت کا فرق عام انتخابات سے آدھا رہ گیا۔ این ائے ساٹھ میں چوں چوں کا مربہ ابھی تیار ہو رہا ہے۔ فرق اتنا کم ہے کہ لازماً قانونی مراحل میں جائے گا۔ این ائے انسٹھ میں ایسا زناٹے دار جواب ملا میجر (ر) طاہر صادق کی طرف سے کہ کان بھی تبدیلی سرکار کے سائیں سائیں کر رہے ہیں۔ اپنے ہی رکن اسمبلی مخالف کیمپ کا حصہ بن گیا۔ این ائے تریپن میں کچھ عزت رہ گئی کہ مخالف ایک مکمل گمنام امیدوار تھا۔ لاہور میں تو این ائے ایک سو اکتیس اور ایک سو چوبیس نے شاید تبدیلی سرکار کو ماؤف کر دیا ہے کہ عوام اتنا جلدی بھی اپنا ردعمل دے سکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب ہو یا فیصل آباد جواب ملنا شروع ہو گیا ہے۔ جو دعوؤں پہ آپ کو سیڑھی چڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے سیڑھی جنجھوڑ کے دکھا دیا کہ سیڑھی گرا بھی سکتے ہیں۔ پختوانخواہ تک میں نشت سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ کراچی، اسلام آباد میں کمزور مخالف امیدوار عزت رکھے جانے کا سبب بن گئے۔ ورنہ بنوں، لاہور میں جو ہوا سب کے سامنے ہے۔

تبدیلی سرکارکے کان کی لوئیں بھی اس کرارے جواب پہ سرخ سی ہو گئی ہیں۔ لیکن شاید جواب سے ابھی کیفیت بحال ہی نہیں ہوئی اس لیے بھونڈی توجیحات پیش کی جا رہی ہیں۔ اگر کیفیت بحال ہو تو شاید اپنی غلطیوں پہ نگاہ ڈالی جائے۔ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پہ توجہ دی جائے کہ کنٹینر کا زمانہ گزر چکا ہے۔ ذمہ داری سونپی جا چکی ہے۔ تو اس سے بری الذمہ اب کیسے ہوا جائے یہ سوچنا حقیقی معنوں میں اہم ہے۔ ورنہ مزید ایسے ہی جوابات کے لیے تیار رہیے گا۔ کاش بڑھکوں سے حکومتی امور بھی سر انجام دیے جا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).