‘صحافی کی قتل کی وجہ خبر بنی’


ضلع ہری پور میں دو روز قبل ہلاک کیے جانے والے مقامی صحافی سہیل خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ چند دن پہلے انھوں نے منشیات کے ایک مبینہ سمگلر کی گرفتاری کی خبر سب سے پہلے دی تھی جس پر ملزمان کی طرف سے ان کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔

مقتول صحافی کے والد حاجی شفاقت نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار ہونے والے سمگلر کے بیٹے ان کے صاحبزادے سہیل خان کو کچھ دنوں سے مسلسل فون پر قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے کہ اس نے گرفتاری کی خبر کیوں دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملزمان سے ان کی رشتہ داری بھی ہے اور شاید اس وجہ سے وہ خبر کی اشاعت پر سخت ناراض تھے۔

ان کے مطابق وقوعہ کے روز بھی ملزمان نے ان کے بیٹے کو فون پر قتل کی دھمکیاں دیں اور دوران ان کی آپس میں تلخ کلامی اور گالی گلوچ بھی ہوئی جس کے بعد شام کےوقت ان کے بیٹے کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔

30 سالہ سہیل خان کا تعلق ہری پور کے علاقے حطار انڈسٹریل سٹیٹ سے تھا۔ وہ ایبٹ آباد سے شائع ہونے والے ایک مقامی اخبار ‘ کے ٹو ٹائمز’ سے وابستہ تھے جبکہ وہ اسی اخبار کے ٹی وی چینل کےلیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ وہ تقریباً گذشتہ پانچ سالوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک تھے۔

سہیل خان کے دو جڑواں بچے ہیں جن کی عمریں سات سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ مقتول کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل سہیل خان کی اہلیہ بعض گھریلو ناچاکی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی اور تقریباً ایک سال سے وہاں مقیم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقتول کی بیوہ نے خاوند سے علحیدگی حاصل کرنے کے لیے عدالت میں ایک کیس بھی دائر کیا ہوا ہے جو ابھی زیر سماعت ہے۔ ان کے مطابق وہ اپنے خاوند کی آخری دیدار کرنے کےلیے بھی سسرال نہیں آئی۔

ادھر ‘ کے ٹو ٹائمز’ کے مدیر سردار افتخار کا کہنا ہے کہ سہیل خان ایک نڈر اور محنت کش صحافی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے قتل کی وجہ وہ خبر بنی جو سمگلر کی گرفتاری سے متعلق تھی۔

ان کے مطابق ایک روز پہلے وہ خبر شائع ہوئی اور دوسرے ہی دن ان کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ انھوں نے کہا کہ مقتول نے پولیس کو ملزمان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا تاہم پولیس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

مدیر کے بقول جس علاقے سے سہیل خان رپورٹنگ کرتے تھے وہاں سے وہ پہلے بھی منشیات کے سمگلروں کے خلاف خبریں دیتے رہے ہیں جس پر پولیس نے منشیات فروشوں کے خلاف کاروائیاں بھی کیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ مقتول سوشل میڈیا پر بھی بہت سرگرم تھے اور اپنی تمام خبریں سماجی رابطے کے ویب سائٹس پر شیئر کیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق جو خبر ان کی قتل کی وجہ بنی وہ بھی اس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے شئیر کی تھی۔

خیال رہے کہ ہزارہ ڈویژن میں گذشتہ کچھ عرصے سے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ گذشتہ سال بھی ہری پور میں ایک مقامی صحافی بخشیش الہی کو مسلح افراد کی طرف سے قتل کیا گیا تھا۔ مقتول بخشیش الہی بھی ‘ کے ٹو ٹائمز’ سے وابستہ تھے اور ہری پور میں اخبار کے بیورو چیف کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ مقامی صحافیوں نے الزام لگایا ہے کہ بخشیش الہی کے قاتل دنداتے پھیر رہے ہیں لیکن پولیس ابھی تک ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کے قتل کے بعد ان کی بیوہ اور بچوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں اور وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزانے پر مجبور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp