ایڈز میں مبتلا ایک پاکستانی اداکارہ کی کہانی


یہ کہہ کروہ رونے لگی۔ مجھے اس سے مزید کچھ نہیں پوچھنا تھا اس لئے اسے تسلی دے کر واپس نکل آیا۔ اب وہ اداکارہ فلمی دنیا کو خیرباد کہہ چکی ہے اور پاکستان میں سب یہی جانتے ہیں کہ اس نے شادی کے بعد بیرون ملک سکونت اختیار کر لی ہے لیکن وہ بیرون ملک موت سے لڑ رہی ہے۔ پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں کیونکہ جس کسی کو بھی یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے وہ بھی علاج کی بجائے خاموشی سے سسک سسک کر مر جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس مرض کا کئی سال تک تو پتہ ہی نہیں چلتا اور علامات نمودار ہو جانے کے بعد وہ پانچ برس سے زیادہ جی نہیں پاتا۔

میں کمرہ نمبر 18 سے باہر نکلا تو میرا سامنا ذکا ء اللہ سے ہو گیا جو شاید ہماری طرف ہی آ رہے تھے۔ دیکھتے ہی بولے
”انٹرویو کیسا رہا۔ “
”خاصا تکلیف دہ۔ “
”آپ کا کیا خیال ہے۔ ایڈز میں مبتلا افراد اپنی شناخت چھپانے کی کیوں کوشش کرتے ہیں؟ “

”رسوائی کے ڈر سے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ مرض عموماً اس شخص کو لگتا ہے جو بے راہ راوی کا شکار ہو جائے، اس مرض کی تشخیص سب سے پہلے 1981ء میں امریکہ میں ہوئی جہاں 1996ء تک 50 ہزار محض جنسی زندگی میں اعتدال نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایڈز کے پھیلاؤ کی ایک وجہ انتقال خون اور استعمال بھی ہے۔ اگر کسی شخص کو ایڈز جیسا مرض ہے تو اس کے خون کا عطیہ کسی کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح اس مریض کو لگائی جانے والی سرنج اگر کسی شخص کے جسم میں داخل ہو جائے تو ایڈز کا مرض اسے منتقل ہوئے گا۔

ایڈز میں مرد یا عورت بعض اوقات لاعلمی اور بعض اوقات جان بوجھ کر یہ مرض دوسروں کو منتقل کر دیتے ہیں۔ جدید ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرنج میں نشہ آور سیال بھر کر جسم میں انجیکٹ کرنے والے افراد بھی اس مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کئی ایک کیسوں میں شوہر گھریلو عورتوں تک یہ مرض پہنچا دیتے ہیں اور اس صورت میں پیدا ہونے والے بچے بھی پیدائشی طور پر ایڈز میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کا بے راہ روی کا دور سے واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ “

ذکا ء اللہ باتیں کرتے کرتے دوبار اپنے کمرے میں چلے آئے جہاں ہم نے چائے کے ایک ایک کپ پر ایڈز جیسے موضوع پر کھل کر گفتگو کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اداکارہ ٹھیک ہو بھی سکتی ہے کیونکہ 5 فیصد مریض اگر ایچ آئی وی جراثیم جسم میں بری طرح نہ پھیلے ہوں تو خود نجود مدافعتی نظام کے مقابلے میں شکست کھا کر ختم ہو جاتے ہیں۔

”ہمارے ملک میں ایڈز کے کتنے مریض ہوں گے؟ “
”اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کوئی اپنے مرض کی تشہیر نہیں کرتا۔ ڈاکڑوں کو بھی صورت حال کا علم اس وقت ہوتا ہے جب مریض بری طرح اس مرض میں مبتلا ہو کر زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے اور اس کے لواحقین آخری امید کے سہارے تحت ہسپتال چلے آتے ہیں۔ یہ مرض زیادہ تر 40 برس سے اوپر کے افراد کو لاحق ہوتا ہے اور امریکہ میں سب سے زیادہ اموات اس مرض سے ہو چکی ہیں جبکہ افریقہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔ دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی تعد اد ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ہے اور اب ایشیائی ممالک بھی بری طرح اس مرض کی زد میں ہیں۔ تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور بھارت میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

ہمیں ایک دفعہ پتہ چلا تھا کہ بھارت نے ایڈز میں مبتلا طوائفوں کا خون ***** اور مختلف ہسپتالوں کے بلڈ یونٹس میں پھیلا نے کی سازش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ہسپتال میں متعلقہ حکام کو سختی ہے ہدایت کی گئی ہے کہ انتقال خون سے پہلے سکرینگ کی جائے کیونکہ ایڈز کا مرض دماغ کی جھلی کو تباہ کرنے کے علاوہ گلے اور پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث بنتا ہے۔ جو شخص ایک ماہ سے بخار میں مبتلا رہے اور اسہال کا مرض اس کا پیچھا نہ چھوڑے اس کا ایچ آئی وی ٹسٹ چیک ضروری ہوتا ہے اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ اس مریض کا وزن کم ہو رہا ہے، اس کے جسم پر گلٹیاں بننا شروع ہو گئی ہیں تو سمجھ لیں کہ اس کی زندگی کا خوفناک پیریڈ شروع ہو گیا ہے۔ “

ذکاء صاحب! کیا ہمارے ملک میں بھارت کے مقابلے میں بدکاری کم ہے؟ “
”بالکل! شاید آپ کو بھارت جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ وہاں ضرور جائیں۔ بھارت فحاشی کے لحاظ سے یورپ کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ وہاں نائٹ کلب ہیں، جسم فروشی کے اڈے ہیں اور ہر قسم کی طوائف آسانی سے دستیاب ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری دنیا کی بڑی فلم انڈسڑی میں شمار ہوتی ہے اور یہ فلم انڈسٹری دراصل بہت بڑا چکلہ ہے جہاں دن رات جسموں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں اب طوائفوں نے بعض شرائط عائد کر دی ہیں۔ مثلا طوائفیں اب فیملی پلاننگ پراڈکٹس استعمال کرائے بغیر مرد کو اپنے قریب نہیں آنے دیتیں۔ لیکن وہاں ہونے والی ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرد بعض اوقات فیملی پلاننگ پراڈکٹس استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ایسا کر کے وہ خود اپنے لئے مصیبت پیدا کرتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3