آصف زرداری کے سامنے نواز شریف کا کھسیانا پن


سابقہ حکومتوں نے بدعنوانی کی انتہا کرکے خزانہ خالی کردیا، اب ملک کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ہے لہذا، ملکی تاریخ کا یہ نازک ترین دور عوام کے صبر وتحمل کا متقاضی ہے۔

انشاءاللہ جلد ہی کرپٹ عناصر کا احتساب کرکے چوروں سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لے کر ملکی خزانے کو بھر لیا جائے گا پھر ہر طرف خوشحالی کا راج ہوگا۔ دیکھیں ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ ایک دم عشروں کا گند صاف کریں۔

میاں صاحب نے اپنی دو حکومتوں کا آغاز انہی کلمات سے کیا تھا، ہماری یادداشت نون لیگ کی 1999سےحالیہ حکومت تک محدود ہے تاہم بزرگوں کے بقول ہر دور میں، ہر طرز حکومت کے آنے والے ہرحکمران نے انہی کلمات سے اپنی حکومت کا آغاز کیا، جبکہ اختتامی کلمات کی فرصت کسی کو نہیں ملی کیونکہ کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہوکر نکلنے والے ہر حکمران نے حیرانگی کے عالم میں ہمیشہ یہی سوال پوچھا کہ ”مجھے کیوں نکالا؟ “

پی ٹی آئی نے بھی حسبِ سابق انہی کلمات سے اپنی حکومت کا آغاز کیا ہے۔ پھر درجہ بہ درجہ وقت کے ساتھ ساتھ وہی تاویلات پیش کرتی جارہی ہے جو ہمارے حکمرانوں کی روایت رہی۔
ہماری سیاست کا اصول یہ ہے کہ مسائل پہ سیاست کی جائے، مسائل حل کرنا کارِ سیاست میں نہیں آتا۔

کرپشن ہی کو لے لیں، سب کرپشن اور قومی دولت کی چوری کا رونا رو رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف مقدمات دائر کرتے ہیں، کچھ عدالت کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کچھ عدالت کے آگے۔

کل نواز شریف پارسائی اور دیانت داری کے اس مقام پہ فائز تھے کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے سپاہی، کرپشن کے خلاف جہاد میں مجاہدِ اعظم، اور آج پتہ چلا میاں صاحب تو جدی پشتی چور ہیں۔

کل میاں صاحب زرداری صاحب کے کے خلاف احتسابی کارروائی کو بڑے فخر سے کرپشن کے خلاف، جہاد قرار دیتے آج نہ صرف اپنے اس جہاد پہ شرمندہ ہیں بلکہ آرٹیکل 62، 63 کے حفاظت جیسی پارسائی کو اپنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ میاں صاحب آج بھی زرداری صاحب کو کرپٹ ہی سمجھتے ہیں۔ اگر میاں صاحب کو یقین ہے کہ زرداری کرپٹ ہیں تو پھر ان کے خلاف کاروئی پہ شرمندگی کیوں؟

دراصل میاں صاحب کے کھسیانے پن کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب کا سیف الرحمن کمیشن اور احتساب زدرای کی کرپشن کے خلاف نہیں تھا بلکہ اصل ہدف پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچانا تھا سو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی مدد سے پیپلز پارٹی کا جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔

زرداری صاحب کرپشن کے بے شمار الزامات و مقدمات میں گیارہ سال قید کاٹ کر باعزت رہا ہوئے اور مردِ حر کا خطاب پایا۔ یہی مردِ حر صدرِ پاکستان اور سابق وزرائے اعظم کے قائد بھی رہے۔

زرداری صاحب کرپشن کی داستانوں، اور مقدمات کا کیا بنا؟ یہ سوالات اب میاں صاحب کا منہ چڑاتے ہیں۔ اسے مکافاتِ عمل سمجھیں یا میاں صاحب کی بدقسمتی کہ آج انہی طاقتوں کے ہاتھوں وہ احتساب کا نشانہ بن رہے ہیں، جن کی مدد سے وہ احتساب کا ڈھونگ رچا کر اپنے مخالفین کو سیاسی نقصان پہنچایا کرتے تھے۔

موجودہ حکومت تبدیلی کی دعویدار ہے تاہم اس کی ساخت بناؤٹ اور اجزائے ترکیبی دیکھ کر اسے بجا طور پہ مسلم لیگ (ع) کہا جاسکتا ہے، چونکہ میاں صاحب نظریاتی ہونے کے دعوے کے ساتھ عوامی سیاست کا رخ اختیار کرکے خود کو روایتی مسلم لیگیت سے جدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لئے عمران گروپ کو مسلم لیگ (ع، غ) کہنا قرین انصاف ہے کیونکہ نواز شریف صاحب کو نظریاتی ہونے میں 35سال لگے جبکہ عمران خان اپنے ابتدائی غیر نظریاتی دور سے گزر رہے ہیں۔

جس طرح خان صاحب کی جماعت مسلم لیگی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے خان صاحب کی حکومت کا احتساب بھی اسی طرز کا ہے۔

میاں صاحب کا احتساب پیپلز پارٹی پہ شروع ہوکر پیپلز پارٹی پہ ہی ختم ہو، اب خان صاحب کے احتساب کا اول آخر میاں صاحب ہیں۔
تحریکِ نیا پاکستان کے احباب ایمان سے بتائیں، کیا تبدیلی سرکار احتساب کے کسی نئے نظام پہ غور کر رہی ہے؟

تبدیلی سرکار کے پاس اب جو دستیاب نظام ہے اس کے تحت صرف انتقام ممکن ہے احتساب ممکن نہیں۔ احتساب سے بھی ضروری اور فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی دولت کو محفوظ بنایا جائے۔

فواد چوہدری صاحب ابھی ٹی وی پہ کہہ رہے ہیں کہ جب ڈاکو گھر لوٹے تو اس کے پیچھے بھاگا جاتاہے۔ حالانکہ گھر کے حفاظت کی تدبیر پہلے کی جاتی ہے۔ دروازے چاردیواری اور تجوری کو محفوظ تر بنانے کی کوشش ڈاکو پکڑنے سے مقدم ہے۔

ویسے قومی دولت کی حفاظت کا مفت مشورہ دینا آسان ہے لیکن ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔ رولنگ ایلیٹ الیکٹبلز یونہی الیکشن پہ کڑوڑوں خرچ نہیں کرتے۔
یہ راز اب جہانگیر ترین صاحب جان چکے ہیں۔ خان صاحب بھی انجان نہیں ہوں گے۔ الیکٹبلز کے بغیر خان صاحب اسمبلی کے گیٹ تک بھی نہیں جاسکے۔
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).